اسرائیل کے ساتھ عرب تعلقات

   

Ferty9 Clinic

دنیا بھر کی نظریں متحدہ عرب امارات ، بحرین اور اسرائیل کے درمیان ہوئے معاہدہ پر مرکوز ہوگئی ہیں ۔ عالم عرب میں یہ ایک ایسی تبدیلی ہے جس کے نتائج آنے والے برسوں میں کیا نکلیں گے یہ مختلف مکتب فکر کے افراد کی سوچ کے دو پہلو ہوں گے ۔ ایک پہلو یہ ہوسکتا ہے کہ عرب اور اسرائیلی معاہدہ سے اسرائیل کے گریٹر منصوبہ کی خفیہ تکمیل پیشرفت میں کامیابی ملے گی اور دوسرا پہلو یہ ہوسکتا ہے کہ مشرق وسطی میں طاقت کا توازن ایک مرکز پر سمٹ جائے گا ۔ ہر دو صورتوں میں نقصان عالم عرب کا ہی ہوسکتا ہے ۔ اگر مشرق وسطی کی موجودہ صورتحال اور عرب اقوام کے موقف و طرز حکمرانی پر انگلیاں اٹھائی جائیں تو یہ درست ہوگا یا غلط اس بحث کو کنارہ پر رکھ کر فی الحال یو اے ای اور بحرین کے اسرائیل کے ساتھ معاہدہ میں امریکہ کے رول پر غور کریں تو واضح ہوگا کہ مغربی دنیا کی بڑی طاقتوں نے اپنے منصوبوں میں کامیابی حاصل کرنا شروع کیا ہے ۔ اسرائیل کو کامیاب اور طاقتور ہونے کا موقع دینے والے کون ہیں یہ سبھی جانتے ہیں ۔ اسرائیل کو عرب سرزمین پر بسا کر اس کی طاقت بڑھانے والوں نے ہی آج عربوں کو اسرائیل کی طرف مائل کرانے میں بھی کامیاب ہوئے ہیں ۔

اقوام متحدہ کے رکن ممالک میں 193 ممالک کے منجملہ 163 ملکوں نے اسرائیل کو تسلیم کیا ہے اور اسرائیل کے ساتھ ان 163 ملکوں کے باہمی سفارتی تعلقات بھی ہیں ۔ اسرائیل دھیرے دھیرے ساری دنیا کے طاقتور ملکوں پر غالب آئے گا ۔ آب عرب امارات بھی اسرائیل کے تابع ہونے لگے ہیں تو سوال یہ اٹھایا جارہا ہے کہ آیا یہ معاہدے عالم عرب کے لیے خطرناک تو نہیں ہیں ۔ خطرات اور اندیشوں کے درمیان یو اے ای ، بحرین نے بھی اسرائیل کو تسلیم کرلیا ہے تو سعودی عرب بھی اسرائیل کے ساتھ نرم موقف اختیار کرے گا اگرچیکہ سعودی عرب نے عرب علاقوں کے اتحاد ، سالمیت اور خود مختاری پر سعودی عرب کے موقف کو غیر متزلزل بنایا ہے ۔ اسرائیل سے قربت کے مسئلہ پر وضاحت کرتے ہوئے سعودی عرب کی کابینہ نے کہا ہے کہ سعودی عرب فلسطینی عوام کے ساتھ کھڑا ہے ۔ مسئلہ فلسطین کے جامع اور منصفانہ حل تک رسائی کے لیے کوشش جاری رہے گی ۔ سعودی عرب کابینہ کا موقف واضح ہے تو پھر مشرق وسطی میں بہت جلد امن کے قیام کے لیے اسرائیل کو پابند کیا جاسکتا ہے ۔

سعودی عرب کی کوششوں پر فلسطینی عوام کو 1967 والی سرحدوں میں خود مختار ریاست قائم کرنے کا موقع ملتا ہے تو پھر اس فلسطینی مملکت کا دارالحکومت مشرقی القدس ہوگا ۔ عرب امن منصوبے اور بین الاقوامی قانونی قرار دادوں کے مطابق امن کا حل نکالا جاتا ہے تو یہ ایک مثبت تبدیلی ہوگی جیسا کہ صدر امریکہ ڈونالڈ ٹرمپ نے اسرائیل کے ساتھ دو خلیجی عرب ملکوں کے درمیان سفارتی تعلقات کے قیام سے متعلق تاریخی معاہدوں پر دستخط کی تقریب میں کہا تھا کہ یہ معاہدہ نئے مشرق وسطی کی صبح ہے ۔ مشرق وسطی میں اگر واقع امن کا سورج طلوع ہوا ہے تو امید ظاہر کی جاسکتی ہے کہ مشرق وسطی میں اسرائیل کے توسیع پسند عزائم ختم ہوں گے ان فلسطینی عوام کے حق میں ایک نیا ماحول دستیاب ہوگا ۔ لیکن اسرائیل کے خفیہ منصوبوں کے بارے میں اندیشہ رکھنے والوں نے اس معاہدہ کی مخالفت کی ہے ۔ ہوسکتا ہے کہ یہ معاہدہ عربوں کو کمزور کرنے کی کوئی عالمی چال ہو ۔ سوال یہ ہے کہ کیا عرب ممالک اس قدر نا فہم ہیں کہ وہ اپنے مستقبل کی فکر کیے بغیر اسرائیل کے ساتھ ہاتھ ملالیں ۔ آیا مشرق وسطیٰ اور عالم عرب میں ترقی و خوشحالی اور امن کی کلید اسرائیل کے پاس ہی ہے ۔ امن کا قیام یقینی بنانے کے لیے اسرائیل کے ساتھ معمول کے تعلقات استوار کرنا ضروری ہے ۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ عالم عرب میں سعودی عرب کا کیا رول ہوتا ہے ۔ سعودی عرب خلیجی تعاون کونسل کا اہم رکن ملک ہے اب وہ ہی اسرائیل کے بارے میں مشرق وسطیٰ اور عالم عرب کے مستقبل کا لائحہ عمل طئے کرسکتا ہے ۔ اس کو بھی سیاسی اور شاہی مجبوریوں کے ساتھ ذاتی مفادات کی فکر ہے تو پھر پورے خطہ میں بہت بڑی تبدیلیاں لانے کا اختیار کل اسرائیل کے پاس ہوگا جو ایک بڑے خطہ کے لیے تشویش کی بات ہوگی ۔۔