کتنی لذت تھی کسی غیر کے کام آنے میں
اب تو اپنوں کیلئے غم نہیں کرتا کوئی
بالآخر وہی ہوا جس کے اندیشے ظاہر کئے جا رہے تھے ۔ اسرائیل نے ایران پر فوجی حملے کردئے اور وہاں فوجی اور جوہری تنصیبات کو نشانہ بنادیا ۔ ایران نے بھی جوابی کارروائی کرتے ہوئے اسرائیل کے خلاف 100 ڈرون حملے کردئے ہیں۔ ایران میں اسرائیلی حملوں میں کچھ جانی نقصانات بھی ہوئے ہیں اور ایک ائرپورٹ بھی متاثر ہونے کی اطلاعات ہیں۔ جہاں تک اسرائیل کا سوال ہے تو وہاں کیا کچھ نقصانات ہوئے ہیں ان کا ابھی کوئی پتہ نہیں چل سکا ہے ۔ ایسا لگتا ہے کہ اسرائیل نے ساری دنیا کو جنگ میں جھونکنے کی تیاری شروع کردی ہے اور اسی وجہ سے وہ یکے بعد دیگرے لگاتار فوجی کارروائیاں کرتا چلا جا رہا ہے ۔ اسرائیل نے پہلے غزہ کو ملبے کے ڈھیر میں اور فلسطینیوں کے قبرستان میں تبدیل کردیا تو شام میں اور لبنان وغیرہ پر بھی حملے کئے گئے تھے ۔اسی طرح اب ایران کی فوجی تنصیبات کو نشانہ بنایا گیا ۔ اس کی جوہری تنصیبات پر بھی حملے کرنے کا ادعا کیا جا رہاہے ۔ ایران ساری دنیا کو خاطر میں لانے کو تیار نہیں ہے اور وہ اپنے طور پر من مانی اقدامات کرتے ہوئے نہ صرف مشرق وسطی میں بلکہ ساری دنیا میںکشیدگی پیدا کرنے کا موجب بن رہا ہے ۔ اسرائیل نے جو فضائی حملے کئے ہیں ایسا لگتا ہے کہ ان کے نتیجہ میں ایک باضابطہ جنگ شروع ہوسکتی ہے کیونکہ ایران نے بھی جوابی کارروائی کرنے کا انتباہ دیا ہے ۔ اس نے کچھ ڈرون حملے بھی کردئے ہیں ۔ اسرائیل کے عزائم اس معاملے میں بہت واضح نظر آ رہے ہیں کہ وہ توسیع پسندانہ عزائم کے ساتھ کام کر رہا ہے اور اپنے لئے کوئی خطرہ برداشت کرنے کو تیار نہیں ہے جبکہ خود اسرائیل ساری دنیا کے امن کیلئے خطرہ بنتا چلا جا رہا ہے ۔ امریکہ اور دوسرے ممالک کی لگاتار اسرائیل کو تائید و حمایت حاصل رہی تھی جس کے نتیجہ میں وہ بے لگام ہوگیا ہے اور کچھ مواقع پروہ امریکہ کی مخالفت کی بھی پرواہ کرنے کو تیار نظر نہیں آتا ۔ وزیر اعظم اسرائیل بنجامن نتن یاہو نے ایران کے خلاف حملوں کے بعد صدر امریکہ ڈونالڈ ٹرمپ اور صدر روس ولادیمیر پوٹن سے فون پر بات کرتے ہوئے تفصیلات سے واقف کروایا اور اپنے موقف کی وضاحت کی ہے ۔
جہاں تک امریکہ کا سوال ہے تو یہ کہا جا رہا ہے کہ امریکہ نے ایران پر اسرائیلی حملے کی مخالفت کی ہے ۔ اسی طرح عرب ممالک بھی فوجی کارروائیوں کے مخالف نظر آتے ہیں جس کے نتیجہ میں اسرائیل یکاو تنہا ہوسکتا ہے ۔ چین کا جہاں تک سوال ہے وہ اسرائیل مخالف موقف ہی رکھتا ہے ۔ اگر عرب ممالک اور چین اسرائیل کی مخالفت کریںا ور امریکہ بھی قدرے خاموشی اختیار کرلے تو پھر اسرائیل کیلئے آگے کا راستہ آسان نہیں ہوسکتا ۔ تاہم مستقبل کے خطرات کی پرواہ کئے بغیر اسرائیل ساری دنیا کیلئے مسائل پیدا کرنے کی وجہ بنتا جا رہا ہے ۔ اگر ایران اور اسرائیل کے درمیان باضابطہ جنگ شروع ہوگئی اور یہ جنگ طوالت اختیار کرگئی تو پھر یہ اندیشے مسترد نہیںکیا جاسکتے کہ تیسری عالمی جنگ شروع ہوسکتی ہے ۔ کئی ممالک اس جنگ کا حصہ بن سکتے ہیں۔ اسرائیل کی مخالفت اور ایران کی تائید میں بھی کئی ممالک سامنے آسکتے ہیں جس کے نتیجہ میں ایک وسیع تر فوجی تصادم پیدا ہوسکتا ہے جو دنیا کیلئے بہتر نہیں ہوسکتا ۔ فوجی ٹکراؤ کسی بھی حالت میںکسی بھی ملک کیلئے نفع بخش نہیںہوسکتا لیکن اسرائیل اپنے عزائم اور منصوبوں کو فوجی طاقت کے ذریعہ ہی پورا کرنا چاہتا ہے اور وہ انسانیت کے خلاف جرائم کے ارتکاب سے بھی گریز نہیں کر رہا ہے ۔ مشرق وسطی کی صورتحال گذشتہ چند دن سے کشیدہ دکھائی دے رہی تھی اور اب ایک باضابطہ فوجی ٹکراؤ شروع ہوگیا ہے جس کے تعلق سے اندیشے لاحق ہوگئے ہیں کہ یہ ایک مکمل جنگ کی صورت بھی اختیار کرسکتا ہے ۔
عالمی برادری اورخاص طور پر امریکہ اور اقوام متحدہ کو اس معاملے میں حرکت میں آنے کی ضرورت ہے ۔ اسرائیل پر لگام کسی جانی چاہئے ۔ اسرائیل کے حملوں کی مذمت کی جانی چاہئے ۔ اسے مزید کسی جارحیت سے روکا جانا چاہئے ۔ اسرائیل کے ظالمانہ اور وحشیانہ اقدامات کی مخالفت کرتے ہوئے اس پر قابو کیا جانا چاہئے ۔ آج کی دنیا کسی جنگ کی متحمل نہیں ہوسکتی اور جنگ کو روکا جانا چاہئے ۔ اس کیلئے ضروری ہے کہ اسرائیل پر لگام کسی جائے اور اسے دنیا کے سامنے جوابدہ بنایا جائے ۔ اگر ایسا نہیں کیا گیا تو دنیا میں بڑی تباہی کے اندیشوں کو مسترد نہیں کیا جاسکتا اور انسانیت کیلئے مسائل پیدا ہوسکتے ہیں۔