اسرائیل ۔ فلسطین گیارہ روزہ جنگ کون جیتا ، کون ہارا

   

ڈاکٹر اسلم عبداللہ
حالیہ عرصہ کے دوران اسرائیل اور فلسطینیوں کے درمیان جو جنگ ہوئی گیارہ روزہ اس جنگ میں 250 سے زائد فلسطینی شہید ہوئے اور 100 ملین ڈالرس سے زائد کا غزہ میں مالی نقصان ہوا۔ اس مرتبہ کی جنگ بڑی تباہ کن رہی اور پھر اس اعادہ کے ساتھ عارضی طور پر روک دی گئی تھی کہ یہ سب کچھ دوسرے دور کی جارحیت کی تیاریاں کرنے کیلئے کیا گیا۔ یعنی جنگ کو عارضی طور پر روکنے کے پیچھے کئی وجوہات ہیں۔ ہوسکتا ہے کہ یہ اسرائیل کی جنگی حکمت عملی بھی ہو یا پھر اسے اندازہ ہوگیا ہے کہ اس کی اپنی لاکھ جارحیت اور مجرمانہ روش کے باوجود فلسطینی بھاری پڑ رہے ہیں۔ یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس جنگ میں کس کی جیت ہوئی اور کس کی شکست ۔ اسرائیل نے یہ دعویٰ کیا ہے کہ اس نے حماس کو اچھا سبق سکھایا ہے۔ جواب میں حماس کا دعویٰ ہے کہ یہ جنگ اس نے جیتی ہے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ انسانیت کو شکست ہوئی اور سب سے بڑی ہار انسانیت کی ہوئی ہے۔ ایک ایسی دنیا جو مختلف نظریات کے ماننے والوں اور مذاہب پر چلنے والوں پر مشتمل ہے، اور جو فروغ امن کے دعوے کرتی ہے، اس مرتبہ بھی جارحیت کو روکنے اور دہشت کا انسداد کرنے میں ناکام رہی۔ اگر دیکھا جائے تو اس خطے میں جو مسلسل لڑائی جھگڑے ہوتے ہیں، اس کی سب سے اہم وجہ غاصب اور جارح اسرائیل کی جانب سے فلسطینیوں کو بے گھر کرنا ہے۔ اسرائیل نے بڑی درندگی اور بے رحمی کے ساتھ لاکھوں کی تعداد میں فلسطینیوں کو ان کے گھروں سے، ان کے ملک سے بے دخل کردیا اور اس نے اپنے اس اقدام کو یہ کہتے ہوئے ہمیشہ منصفانہ قرار دیا ہے کہ یہ ارض مقدس اللہ عزوجل نے حضرت اسحاق کی اولاد کو عطا کیا ہے اور فلسطین کو حضرت اسحاق کے خاندان کو عطا کئے جانے کا اعلان بائبل میں خود خدا نے کیا ہے۔ دنیا کی اکثریت اسرائیل کے اس دعوے کو مسترد کرتی ہے ، لیکن اس کے باوجود اسرائیل کی دروغ گوئی و جھوٹ کو بے نقاب کرنے کے معاملے میں اپنے آپ کو بے بس و مجبور پاتی ہے۔ جبکہ یہودی اور صیہونی تنظیمیں اپنے اس دعوے کو انسانی زندگیوں اور تباہی و بربادی کی قیمت پر فروغ دے رہی ہیں۔

دوسری طرف دنیا یہ اچھی طرح جانتی ہے کہ فلسطینی تقریباً 100 سال سے ناانصافی اور دہشت کا شکار بنے ہوئے ہیں۔ اس کے باوجود عالمی برادری اسرائیل کی جارحیت کے خلاف نہیں ٹھہر سکتی اور اس کی مخالفت سے گریز کرتی ہے۔ اگر دیکھا جائے تو آج جو یہودی مملکت اپنی بقاء کو یقینی بنائے ہوئے ہیں، وہ دراصل امریکہ اور مغربی عیسائی رہنماؤں کی تائید و حمایت کی بنیاد پر ہے۔ امریکہ اور مغربی ممالک کے عیسائی رہنما اپنی سیاسی وابستگی سے بالاتر ہوکر اسرائیل کی تائید و حمایت کرتے ہیں، اور اسرائیل نے ان کی تائید کی بنیاد پر ہی فلسطینیوں کا جینا دوبھر کردیا ہے۔ ساری دنیا جانتی ہے کہ اپنے قیام کے ساتھ ہی اسرائیل نے فلسطینیوں کے خلاف ظالمانہ روش اختیار کی اور اسے امریکہ سے سب سے زیادہ مالی امداد موصول ہوئی ہے۔ امریکہ نے اسرائیل کی فوجی امداد کا سلسلہ جاری رکھتے ہوئے اس کی جارحانہ و غاصبانہ پالیسیوں کی حوصلہ افزائی کی۔ خاص طور پر فلسطینیوں کی زندگیوں سے کھیلنے کے معاملے میں امریکہ اور مغربی ممالک نے اسرائیل کا نہ صرف ساتھ دیا بلکہ قدم قدم پر اس کی حوصلہ افزائی میں کوئی کسر باقی نہیں رکھی۔ اگر دیکھا جائے تو دنیا کے مختلف ممالک سے یہودی حملہ آور جس انداز میں اسرائیل منتقل ہورہے ہیں، ان کی منتقلی کیلئے امریکہ کے کٹر عیسائی مذہبی رہنما اور ان کے ماننے والے ذمہ دار ہیں۔ یہی لوگ یہودیوں کی اسرائیل منتقلی کیلئے فنڈ جمع کرتے ہیں۔ ان کا ایقان ہے کہ اس ارض مقدس پر فلسطینیوں کے کوئی حقوق نہیں۔ یہودی بائبل کے حوالے سے یہی دعوے کرتے ہیں کہ اللہ عزوجل نے ان پر رحم کیا ہے اور اسی کے رحم کے تحت وہ انتہائی مکاری کے ساتھ فلسطین کی مقدس سرزمین کی ملکیت کا دعویٰ کرتے ہیں۔ یہ یہودی پوری آزادی سے فلسطینیوں کی زمین پر نہ صرف قابض ہوتے ہیں بلکہ فلسطینیوں کو ان کے گھروں سے زبردستی اور طاقت کے زور پر بے دخل کرتے ہوئے اس پر قبضہ کرتے ہیں۔ یہ سب کچھ فلسطینیوں کے دشمن اسرائیلی حکومت کی ناک کے نیچے ہوتا ہے۔ یہودی حملہ آور اور قابضین کو حکومت تحفظ فراہم کرتی ہے۔ اور جب فلسطینی ، یہودی حملہ آوروں اور قابضین کا مقابلہ کرتے ہیں اور اپنے حقوق کیلئے مزاحمت کرتے ہیں تو پھر اسرائیل اسے دہشت گردانہ کارروائی قرار دے کر فلسطینیوں پر اندھادھند بم برساتا ہے اور اُن آتشیں اسلحہ کی مدد سے نہتے فلسطینیوں کا خون بہاتا ہے جو اس نے امریکی ٹیکس دہندگان کی جانب سے ادا کردہ ٹیکس کو امداد کے نام پر حاصل کیا ہے اور اسے یہ امداد امریکہ ہتھیاروں کی شکل میں فراہم کرتا ہے۔

حکومت اسرائیل کو عیسائی و یہودی رہنماؤں کی بھرپور تائید حاصل ہے اور یہ تائید و حمایت اسے اسی وقت سے حاصل ہے جب 1948ء میں اس کا قیام انتہائی مکاری کے ساتھ عمل میں آیا تھا اور فلسطینیوں کے حقوق نظرانداز کرتے ہوئے اس کرہ ارض پر فلسطین کی ملکیت سے متعلق بائبلی ورژن نافذ کیا گیا۔ افسوس صدافسوس کہ اقوام متحدہ سلامتی کونسل کے پانچ بڑے ملکوں نے اپنے ویٹو اختیارات کے ذریعہ یہودیوں کے حملے اور قبضے کو منصفانہ قرار دیا۔ واضح رہے کہ اقوام متحدہ جنرل اسمبلی میں دنیا کی 80% آبادی کی نمائندگی پائی جاتی ہے، لیکن اس قدر زیادہ نمائندگی کے باوجود صرف پانچ ملکوں نے اسرائیل کے غیرقانونی قبضے اور اس کے مظالم کو یہ کہتے ہوئے تسلیم کیا ہے کہ یہ اسرائیل کا حق ہے اور وہ اسرائیل کے حق دفاع کو تسلیم کرتے ہیں۔ اس طرح ان پانچ ملکوں نے نسلی عصبیت کی حامل ریاست ِ اسرائیل کو قبول کرلیا۔ حالیہ عرصہ کے دوران اسرائیل نے جس انداز میں 11 روزہ جنگ فلسطینیوں پر مسلط کی، دنیا کو ماضی کی جنگوں کی طرح نقصانات کا سامنا کرنا پڑا، لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ عالمی برادری نے ہمیشہ کی طرح اسرائیل کو اس ارض مقدس کی تباہی و بربادی کیلئے جوابدہ نہیں بنا سکی۔ پچھلی جنگجوں میں بھی امریکہ کے بشمول دنیا کی اہم طاقتوں نے اسرائیل کی درندگی کے باوجود یہ کہتے ہوئے اس کی تائید و حمایت کی تھی کہ ہم اسرائیل کے حق دفاع کی تائید کرتے ہیں، تاہم اس مرتبہ اگرچہ امریکہ اور اس کے حلیفوں نے کھلے عام اسرائیل کی تائید کی لیکن دنیا بھر کے شہروں میں نوجوان نسل سڑکوں پر نکل آئی اور اسرائیل کی جارحیت کی مذمت کی اور اسے ایک جارح ملک قرار دیا۔ نوجوانوں کا اس طرح سڑکوں پر آکر اسرائیل کی مذمت کرنا مشرق وسطیٰ میں ایک اہم موڑ ثابت ہوسکتا ہے۔ سب سے اچھی بات یہ ہے کہ اسرائیل کی نسلی عصبیت کے ڈھانچہ کو نہ صرف مشرق وسطیٰ میں عوام نے احتجاجی مظاہروں کے ذریعہ چیلنج کیا بلکہ واشنگٹن اور یوروپی ممالک کے دارالحکومتوں میں بھی احتجاجی مظاہرہ کرتے ہوئے اسے چیلنج کیا گیا۔ فلسطینیوں کی تائید میں لگائے گئے نعروں کی گونج ساری دنیا میں سنائی دی۔ ان نعروں سے اسرائیل بے نقاب ہوجائے گا۔

فلسطینیوں نے انتہائی بہادری سے اسرائیل کے خلاف مزاحمت کی اور غزہ میں فلسطینیوں نے جس انداز میں اسرائیل کے خلاف مزاحمت کی، اس نے دنیا بھر کے نوجوانوں کو حوصلہ دیا۔ لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ ہندوستان میں ایسا نہیں ہوا۔ بعض لوگوں نے اسرائیل کی حمایت کی اور فلسطینیوں کی مخالفت کی۔ جہاں تک امریکہ کا سوال ہے امریکہ میں کٹر عیسائی اور یہودی گروپس ہیں۔ جبکہ ہندوستان کا معاملہ ہے، ان سے مختلف نہیں۔ مثال کے طور پر ہندوستان میں ہندوتوا نوجوانوں نے اپنے اسلام اور مسلم دشمن موقف کے باعث اسرائیل کی تائید کی، لیکن وہ لوگ اس حقیقت کو نہیں سمجھ سکے کہ فلسطین میں جہاں مسلمان ہیں، وہیں عیسائیوں کی بھی ایک بڑی تعداد بستی ہے۔ اس جنگ میں عارضی جنگ بندی سے یہ بات یقینی ہوگئی ہے کہ فی الوقت شیخ جراح علاقہ سے اسرائیلی غاصب، فلسطینیوں کو بے گھر نہیں کریں گے۔ اس سے بیرونی ممالک میں مقیم فلسطینیوں کو آزاد فلسطین کیلئے جدوجہد کرنے کا ایک نیا جذبہ مل گیا ہے۔ اس کے علاوہ دنیا کی نوجوان نسل کو مقبوضہ علاقوں میں فلسطینیوں کی حالت زار سے واقف ہونے کا بھی موقع ملا۔ اس معاملے میں نوجوان نسل سرگرم ہوگئی ہے۔ حالیہ جنگ نے صیہونیت کے بھیانک چہرے کو بھی بے نقاب کردیا ہے۔ ایک طرف امریکی حکومت پوری مضبوطی کے ساتھ اسرائیل کا ساتھ دے رہی ہے تو دوسری طرف امریکی عوام نے اب قتل عام کو بڑھاوا دینے والی مملکت اسرائیل کو امریکی تائید پر سوال اُٹھانے لگے ہیں اور امریکی عوام یہ بھی سوال کررہے ہیں کہ آخر کس بنیاد پر امریکی حکومت، اسرائیلی ظلم کا شکار فلسطینیوں کو جنگ کیلئے ذمہ دار قرار دے رہی ہے۔