اسرائیل :600سے زائد فلسطینی بغیر کسی فردجرم کے زیرحراست

   

تل ابیب : اسرائیل کا کہنا ہے کہ وہ حساس انٹیلیجنس معلومات ظاہر کیے بغیر مسلح حملوں کو ناکام بنانے کے لیے ’انتظامی حراست‘ کا سہارا لیتا ہے مگر انسانی حقوق کی تنظیموں کے مطابق اسرائیل میں یہ نظام بڑے پیمانے پر غلط استعمال ہوتا ہے۔ اسرائیل میں سرگرم انسانی حقوق کے تحفظ کے ایک گروپ کا کہنا ہے کہ فی الوقت اسرائیل نے تقریباً 600 فلسطینیوں کو بغیر کسی باقاعدہ الزام یا ان کے خلاف کسی مقدمے کی کارروائی کے حراست میں لے رکھا ہے۔ اس گروپ کے مطابق سن 2016 کے بعد سے یوں حراست میں رکھے گئے فلسطینیوں کی یہ سب سے بڑی تعداد ہے۔اسرائیل کا سرکردہ ہیومن رائٹس گروپ ’ہاموکڈ‘ باقاعدگی سے جیل حکام سے معلومات لے کر اعداد و شمار جمع کرتا ہے اور اسی نے دو مئی پیر کے روز بتایا کہ اس وقت 604 قیدی نام نہاد ’انتظامی حراست‘ میں ہیں۔ اس تنظیم کے مطابق چونکہ انتظامی حراست کو یہودیوں کے خلاف بہت کم استعمال کیا جاتا ہے، اس لیے یہ تقریباً سبھی قیدی فلسطینی ہیں۔’انتظامی وجوہات کی بنا پر زیر حراست افراد‘ کہلانے والے ایسے قیدیوں کو ’خفیہ شواہد‘ کی بنیاد پر گرفتار کیا جاتا ہے اور وہ اپنے خلاف الزامات تک سے بے خبر ہوتے ہیں۔ انہیں عدالت میں اپنا دفاع کرنے کی اجازت بھی نہیں ہوتی۔ عام طور پر ایسے قیدیوں کو چھ ماہ تک کی قابل تجدید مدت کے لیے حراست میں رکھا جاتا ہے۔ یوں اس مدت میں بار بار کی جانے والی توسیع کے باعث وہ مجموعی طور پر برسوں جیلوں میں رہتے ہیں۔دوسری طرف اسرائیل کا کہنا ہے کہ اس کا یہ طریقہ کار شواہد جمع کرتے رہنے کے ساتھ ساتھ حکام کو مشتبہ افراد کو اپنی حراست میں رکھنے کی اجازت بھی دیتا ہے۔ تاہم اس قانون کے ناقدین اور انسانی حقوق کے گروپوں کا کہنا ہے کہ اس نظام کے تحت بڑے پیمانے پر زیادتیاں کی جاتی ہیں۔