ہندوستان میں 5/ ستمبر کو ٹیچرس ڈے کیوں منایا جاتا ہے.؟

,

   

ہمارے ملک ہندوستان میں اساتذہ نے سماج کے تئیں جو گرانقدر خدمات انجام دیں ہیں۔ انہیں خراج عقیدت پیش کرنے کے لئے 5/ ستمبر کے دن کو ٹیچرس ڈے کے طور پر منایا جاتا ہے۔ 5/ ستمبر کو ڈاکٹر رادھا کرشنن کا یوم پیدائش بھی ہے جو تعلیم وتدریس کے زبردست حامی اور شیدائی کے ساتھ ساتھ معروف سفارتکار، اسکالر، صدر جمہوریہ ہند ہونے کے باوجود وہ ایک عظیم معلم بھی تھے۔ جب ان کے کچھ خاص شاگردوں اور دوست و احباب نے ان سے خصوصی ملاقات کرکے اس خواہش کا اظہار کیا کہ وہ ان کی پیدائش کے دن کو جشن کے طور پر منانا چاہتے ہیں تو انہوں نے اپنے ان خاص شاگردوں اور دوست و احباب سے کہا کہ میرے یوم پیدائش کو الگ سے جشن کے طور پر منانے کی بجائے یہ بات میرے لئے خاص فخر کی ہوگی کہ اگر 5/ ستمبر کے دن کو ٹیچرس ڈے کے طور پر منایا جائے۔ اس دن کے بعد سے پورے ہندوستان میں 5/ ستمبر کو ٹیچرس ڈے کے طور پر منایا جانے لگا۔ 1967ء سے لیکر آج تک بڑی پابندی کے ساتھ اور باقاعدہ سرکاری طور پر 5/ ستمبر کو ٹیچرس ڈے کا جشن تسلسل کے ساتھ منایا جارہا ہے۔ ڈاکٹر رادھا کرشنن کی پیدائش 5/ ستمبر 1888ء میں تیروتنانی نامی گاؤں میں ایک متوسط گھرانے میں ہوئی ان کے والد کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ اپنے بچے کو انگریزی تعلیم سے آراستہ نہیں کرنا چاہتے تھے بلکہ وہ ڈاکٹر رادھا کرشنن کو مذہبی تعلیم دلا کر پجاری بنانا چاہتے تھے لیکن قسمت کو کچھ اور ہی منظور تھا۔ وہ 1952 میں نائب صدر جمہوریہ ہند بنائے گئے اور 1962 میں پانچ سال کے لئے صدر جمہوریہ ہند کے سب سے بڑے ملک کے اعلیٰ عہدے پر فائز ہوئے۔ آپ کو تعلیم سے بچپن ہی سے بیحد لگاؤ تھا اور انہوں نے تعلیمی میدان میں نمایاں خدمات انجام دیں اور ملک کے مشہور و معروف تعلیمی اداروں سے آپ زندگی بھر وابستہ رہے۔

پورے ملک میں 5/ستمبر کو ٹیچرس ڈے کے دن طلباء وطالبات ٹیچروں کا ڈریس زیب تن کر کے کلاس روم میں ٹیچر بنکر بچوں کی کلاس لیتے ہیں اور کبھی کبھار اس دن ایسا منظر بھی دیکھنے میں آتا ہے کہ ٹیچرس بچوں کے کلاس روم میں طلباء وطالبات کی حیثیت میں تشریف رکھتے ہیں اور طلباء وطالبات ان کی کلاس لیتے ہوئے نظر آتے ہیں اور وہ یوں ماضی میں طالب علمی کے زمانے میں کھو جاتے ہیں۔ جب خود وہ طالب علم کی حیثیت سے تعلیم حاصل کر رہے تھے۔

معلم پوری قوم کا معمار ہوتا ہے نسلیں در نسلیں ان ہی کی زیرنگرانی پروان چڑھتی ہیں۔ سماج اور معاشرہ کو دیکھ کر اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ان کے معلم اور اساتذہ کیسے رہے ہونگے۔

پوری دنیائے انسانیت کے معلم اعلیٰ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: علم سیکھوں اور علم کے لیے سکینت اور وقار سیکھو اور جس سے علم حاصل کرو اس سے تواضع سے پیش آؤ۔ ( طبرانی )

علم دین کے ذریعہ سے ہی آدمی کو اپنی اصل قدر و قیمت اور اپنے مقام بلند کا شعور حاصل ہوتا ہے۔ یہی وہ علم ہے جو آدمی کو خدا کی عظمت اور اس کی بزرگی کا احساس بخشتا ہے اور اسے اس بات سے باخبر کرتا ہے کہ اس کے رب کو اس سے کیا چیز مطلوب ہے۔ وہ خدا کی رضا اور اس کی خوشنودی کیسے حاصل کرسکتا ہے۔ والدین کے بعد استاد کا ہی حق تسلیم کیا گیا ہے۔ والدین نے ہمیں پال پوس کر بڑا کیا لیکن آدمی کی فکری و دینی تربیت میں بڑا حصہ اساتذہ کا ہی ہوتا ہے۔ اس لیے ان کے حقوق کو کسی طرح نظر انداز نہیں کیا جاسکتا ہے۔ ان کا سب سے بڑا حق یہ ہے کہ ہم ان کے سامنے ادب واحترام سے پیش آئیں۔ ان کے ساتھ ہمارا برتاؤ ہمیشہ تواضع و انکساری کا ہو۔

محمد خالد داروگردولت نگر، سانتاکروز، ممبئی