پانچویں بین الاقوامی ’’یوم یوگا‘‘کے موقع پر سرکردہ سیاسی قائدین کے بیانات کے تناظرمیں
مفتی سید صادق محی الدین فہیمؔ
اللہ سبحانہ کا ارشادہے’’بے شک اللہ سبحانہ وتعالی اس کے ساتھ شر ک کرنے کو معاف نہیں کرتا،اس کے سوا جسے چاہتا ہے بخش دیتا ہے اورجواللہ سبحانہ کے ساتھ شریک مقررکرے وہ بڑے گناہ اوربہتان کا مرتکب ہے ‘‘(النساء:۴۸)اللہ سبحانہ کی عبادت کرواوراس کے ساتھ کسی کوشریک نہ بنائو(النساء:۳۶) شرک ظلم عظیم ہے(لقمان)۔ شرک کے تین درجے ہیں:(۱)اللہ سبحانہ کے علاوہ مخلوقات سے کسی کوالٰہ یقین کرنا یہ شرک اعظم ہے(۲)مخلوقات میں سے کسی کے بارے میں یہ اعتقادرکھنا کہ وہ مستقل اوربالذات اللہ سبحانہ کے بغیرکوئی کام بناسکتا ہے اگرچہ کہ اس کوالٰہ نہ مانیں(۳)مخلوقات سے کسی کوعبادات میں شریک کرنایعنی اللہ سبحانہ کے احکام کی تعمیل اورعبادات کا اہتمام دکھاوے کیلئے کرنا(قرطبی:۵؍۱۸۱)۔یوگا میںپہلی دونوں صورتیں بدرجہ اتم پائی جاتی ہیں ،چونکہ اس میں سورج کودیوتامانا جاتاہے،اس کونمسکارکیا جاتا ہے،کچھ مشرکانہ اشلوک جپے جاتے ہیں اور کائنات میں سورج کومتصرف بالذات بھی تسلیم کیا جاتاہے۔الغرض یوگا کئی ایک کفریہ وشرکیہ مشتبہ ومشکوک افعال واقوال کا مرکب ہے اس کو ورزش کے خیال سے کیوں نہ ہواختیارکرنا گویاایمان واسلام کودائوپرلگاناہے،یہ جانتے ہوئے بھی یوگا کی حمایت کرنا گویا زبان حال سے اس بات کا اقرارکرنا ہے کہ اسلام جیسے عالمگیرفطری سچے مذہب میں انسانی صحت وتندرستی کا کوئی خاص لحاظ نہیں ہے اس لئے یوگا سے اس کمی کا ازالہ کرنے کی ضرورت درپیش ہے،اس فکری زوال کے ساتھ یوگا کی حمایت واشاعت ایسی ہی ہے جیسے کسی کواللہ سبحانہ نے خوب نوازا ہو پھربھی وہ محتاجی وتنگدستی کا روپ دھارکر اپنی بنیادی ضرورتوں کی تکمیل کیلئے غیروںکادرکھٹکھٹائے یا کاسہ ء گدائی لئے بھیک مانگ کراپنی رسوائی کا سامان کرے۔اسلام ایک فطری اورحساس مذہب ہے ،اسلام کی روح اورمزاج شریعت کی حفاظت ہی میں ایمان واسلام کی حفاظت اورمسلمانوں کے تحفظ کی ضمانت ہے، اسلامی احکامات کی پاسداری اوراس کی مقررکردہ عبادات واذکارکی پابندی دنیا اورآخرت میں کامیابی وسرفرازی کا موجب ہے اس میں نماز،روزہ جیسی بدنی عبادات بھی شامل ہیں،عبادات ،ذکرواذکاراپنے خالق ومالک کی طرف توجہ ویکسوئی کی بڑی اہمیت ہے،توجہ الی اللہ سے جوگیان ودھیان حاصل ہوتا ہے اورجس کی وجہ تسکین خاطرکی نعمت نصیب ہوتی ہے وہ دنیا میں رائج غیرمنزل من اللہ عبادات کے طریقوںجیسے یوگا وغیرہ اورکسی سائنسی یا غیرسائنسی ورزشی افکارواعمال میں مفقودہے۔الغرض اسلامی احکامات کے مطابق زندگی گزارنے کے بے نہایت مادی ،طبی اورروحانی فوائدہیں ،انسانی عقل وفہم کماحقہ اس کے ادراک سے عاجزوقاصرہے ،
سائنسی تحقیقات نے اسکے کچھ گوشوں سے پردہ ضرور ہٹایا ہے لیکن سائنسداںبھی مخلوق ہیں،خالق کائنات نے ان احکامات میں دنیوی دینی واخروی اعتبارسے کیا کیا حکمتیں ومصلحتیں پوشیدہ رکھی ہیں ان تک انسانی عقل کی رسائی ممکن نہیں ۔ صحت وتندرستی کی بقاء کیلئے بشمول یوگا جسمانی ورزشی ایسے کھیل کود جن میں کئی ایک شرعی موانعات ہیں ایمان والوں کیلئے قابل عمل نہیں،یہ مقصداسلامی احکامات کی پاسداری اورتقرب الی اللہ کے جذبہ اورمقام احسان کی کیفیات کی حضوری کے ساتھ عبادات کی پابندی سے ضمنامادی(جسمانی صحت کے) فوائد ازخودحاصل ہوجاتے ہیں،اس لئے مسلمانوں کوجسمانی ورزش کیلئے ’’یوگا‘‘جیسے غیرمسلم شعارپرمبنی طریقہ اختیارکرنے کی چنداں ضرورت نہیں ہے۔ یوگا ایک ہندوانہ فلسفہ عبادت ہے،جس کوان کے مذہبی پیشوا اپنے متبعین کے ساتھ مشرکانہ اعتقادات اور شرکیہ افعال کے مطابق اداکرتے ہیں،ان کی مذہبی کتاب ’’بھگوت گیتا‘‘سے بھی اس کے حوالے بتائے جاتے ہیں،مشرکانہ اعتقادات واعمال پرمبنی کوئی ورزش جیسے یوگا وغیرہ کی تصدیق وحمایت ان کی مذہبی کتاب سے ہورہی ہے تواس کے مشرکانہ عمل ہو نے میں کوئی شک وشبہ کی گنجائش باقی نہیں رہتی۔ اس کے باجود کچھ مسلم افرادکا ا سکوورزش سمجھنا اوراس غلط فہمی کے ساتھ اس کی حمایت کرنا گویااسلام کے عقیدئہ توحید کی انفرادی شناخت ہی کومٹادیناہے۔مشرکانہ اعمال کوخوشنما عنوان سے قبول کرلینا بھی گویا ایمان کی روحانیت اورنورانیت کھوکر کفروشرک کی تاریک وادیوں میں گم ہوجاناہے،’’یوگا‘‘کی مذہبی حیثیت سے واقف ہوجانے کے بعد اس کوورزش سمجھنا بہت بڑی غلطی ہے۔اسلام کفروشرک ،الحادوبے دینی کا راستہ بنانے والے ہرروزن(کھڑکی)کوبندکردیتا ہے،زہرکودنیا زہر ہی مانتی ہے ،اس کی تھوڑی تھوڑی خوراک بھی انسان کوموت کے منہ میں پہنچا سکتی ہے،ہندوانہ باطل مذہبی طوروطریق ،رسوم ورواج مسلم سماج میں آہستہ آہستہ رواج پانے لگیں توشدیدخطرہ اس بات کا ہے کہ ملت اسلامیہ کی نئی نسل کا رشتہ اسلام سے منقطع ہوجائے اوراسلام کی آغوش رحمت سے نکل کرباطل کی تاریک وخاردار وادی میں گم ہو جائے۔العیاذباللہ
ذرائع ابلاغ کے مطابق اس وقت تقریبا ۴۰؍مسلم ممالک نے بھی اوردیگرجمہوری طرزکی مملکتوں کے ساتھ ۲۱؍جون کوہرسال عالمی یوگا یوم(ڈے)منانے سے اتفاق کرلیا ہے،دنیا پرست بعض مسلم حکمراں اورناعاقبت اندیش کچھ مسلمان ورزش کے عنوان سے دھوکہ کھاکر اس کی طرف راغب ہورہے ہیں اوراس کے فروغ میں اپنی توانائیاں ضائع کررہے ہیں،جبکہ یوگا ہندومذہب کے مذہبی پیشوائوں اوران کی مذہبی کتابوںکی تحقیق کے مطابق خالص ہندوانہ طریقہء عبادت ہے ،اس کے مشرکانہ طوروطریق جیسے سوریہ نمسکار اوراس میں پڑھے جانے والے مشرکانہ اشلوک اس کے شرکیہ ہونے کی تصدیق کیلئے کافی ہیں۔ورزش کے نام سے ان کی مذہبی وسیاسی شخصیتوں کی اس (یوگا)کے احیاء میں دلچسپی لینے کا مقصدکفریہ وشرکیہ اعتقادات، ہندوانہ رسوم ورواجات اورمشرکانہ طریقہائے عبادات کو مسلم سماج میں پھیلانا اور ورزش کے خوشنما عنوان سے ملت کے سادہ لوح افراد کو اس جانب راغب کرنا ہے،یہ ایک سوچی سمجھی منصوبہ بند ناپاک سازش ہے۔مسلمان اس سازش کوسمجھیں اوردشمن طاقتوں کی چالاکیوں اورعیاریوں سے باخبررہیں اس حقیقت کوہرگزنہ بھولیں کہ مذہب اسلام اعتقادات وایمانیات ،عبادات ومامورات،معمولات ومعاملات کے ساتھ زندگی کے تمام شعبوں میں کلی یا جزوی طورپرکفریہ وشرکیہ اعمال واشغال کے غیرمحسوس طورپر راہ پانے کو ہرگزگوارہ نہیں کرتا ۔اسلام کا خصوصی امتیازیہ ہے کہ وہ دوسری باطل تہذیبوں کوکفروشرک کی آلائشات سے پاک وصاف کرکے اوران کی باطل ولغو رسومات اوررواجات کا خاتمہ کرکے اپنے اندران کوجذب کرنے کی وسعت وگنجائش ضرور رکھتا ہے،لیکن کسی بھی قدیم باطل مذہبی افکارواعمال، فاسدرسوم ورواجات یاجدیدملحدانہ تصورات ،خدابیزارفلسفیانہ افکار وخیالات کو قبول کرکے خودکوان کی تہذیب میں ضم کرنے کا کوئی تصورتک نہیں کرسکتا، گوکہ وہ مادیت کے غلبہ کی وجہ مادہ پسندوں کی آنکھوں کوخیرہ کرر ہے ہوںیا ان کی ظاہری چمک و دمک ان کے دل ودماغ کومتاثرکرہی ہو۔ ’’ان کی چاہت توبس یہی ہے جس طرح کے وہ کافرہیںویسے تم بھی کفرکرنے لگواورپھریکساں ہوجائو،ان میں سے تم کسی کوجگری دوست مت بنائو‘‘ (النساء:۸۹)باطل پرستوں کی سوچی سمجھی منصوبہ بندسازش تویہی ہے کہ ایمان والوں کوایمان سے محروم کرکے باطل کے رنگ میں رنگ دیا جائے۔توحیدکا اجالا جب مکۃ المکرمہ کوروشن کرتے ہوئے اطراف عالم میں پھیلنے لگا توکفارومشرکین کا چین وسکون چھن گیا،پیغام توحید کے پھیلائو کوروکنے کیلئے انہوں نے ایک ایسی تدبیرسونچی جس سے مسلمانوں کے عقیدئہ توحیدپرضرب پڑے ،تجویزیہ تھی کہ ایک سال ہم تمہارے معبودکی عبادت کریں گے اورایک سال تم ہمارے معبودوں کی پرستش کرو،اس پرسورۃ الکافرون نازل ہوئی،اسلام کفر وشرک اورایسے تمام امورجو کفروشرک تک پہنچانے والے ہیں کوہرگزگوارہ نہیں کرتا۔ایمان جہاں ہوگا وہاں کفریات وشرکیات ہرگزراہ نہیں پاسکتے ،سماجی یاتجارتی تعلق ومحبت کواستواررکھنے کیلئے رواداری کے عنوان سے مسلم سماج کے بعض گوشے ایسی زبان میں گفتگوکرنے لگے ہیں جوکفارومشرکین کوخوش کرسکتی ہے لیکن یہ سودا اللہ سبحانہ کی ناراضگی کی قیمت پرہوسکتا ہے،اس سے ایمان کوجوشدیدخطرہ لاحق ہے وہ جانے بوجھے یا انجانے میں شایداس سے بے خبرہیں۔انسانی ہمدردی ورواداری اس جیسی سودے بازی کا نام نہیں بلکہ حقیقی ہمدردری ورواداری تویہ ہے کہ باطل کی تاریک وادیوں میں سرگرداں انسانیت کوراہ ہدایت دکھائی جائے،ورنہ کم سے کم اپنے ایمان کی حفاظت کوضرورعزیزازجان رکھاجائے اوروہی بات کہی جائے جو ان جیسے حالات میں اللہ سبحانہ نے ایمان والوں کوسکھائی ہے’’تمہارادین تمہارے لئے اورمیرے لئے میرادین ہے‘‘ایمان والے امن و آمان انسانی بنیادوں پریکجہتی و اتحادکوممکنہ حد تک ملحوظ رکھیں لیکن ایسا اتحادنہیں جوباطل سے مصالحت کی قیمت پرہو۔ایمان واسلام کا تقاضہ یہ ہے کہ توحیدکے پاکیزہ ایمانی صاف وشفاف چشمہ کوکفریات وشرکیات کی آمیزش سے گدلا نہ کیا جائے ،کفروشرک کی رتی برابرآمیزش سے حق حق نہیں رہ سکتا بلکہ وہ باطل میں تبدیل ہوجاتا ہے۔اسلام نام ہے حق کی تابعداری میں اس کے حیات بخش اصولوں کے مطابق زندگی گزارنے کا،دین وایمان کی حفاظت اوراس پراستقامت دکھانے کا،اس کومقصدحیات بنالینے اور اسی پرجینے ومرنے کے عزم ویقین کوتازہ وحیات بخش رکھنے کیلئے ضرورت اس بات کی ہے کہ اس ارشادالہی کوسرمہ بصیرت بنالیا جائے ’’اوربے شک یہ دین میراسیدھاراستہ ہے تم اسی راہ پرچلو،اوردوسرے راستوں پرمت چلوکہ وہ راہیں تم کواللہ سبحانہ کی راہ سے جداکردیں گی،اللہ سبحانہ نے اس کا تم کوتاکیدی حکم دیاہے تاکہ تم تقوی کی راہ پرقائم رہو ‘ ‘(الانعام:۱۵۳) اسلام کرئہ ارض کے سارے انسانوںکیلئے عظیم تحفہ ہے اوراسلامی احکامات کی تابعداری ہرشیٔ سے بالاترہے، جسمانی صحت وتندرستی،قلب ودماغ کی یکسوئی وراحت،مادی وروحانی فوائد اوراخروی کامیابی کا راز ایمان اورایمان کے تقاضوں کی صحیح معنی میں تکمیل پرموقوف ہے۔