اسلامی حجاب خواتین کے تقدس کا ضامن

   

ابوزہیر سید زبیر ہاشمی نظامی، مدرس جامعہ نظامیہ
ہمارے ملک میں فرقہ پرستوں کی طرف سے حجاب کی مخالف مہم چھیڑی گئی تھی، جو کہ اس ملک کے دستور و آئین اور تہذیب و ثقافت کے بالکل خلاف ہے۔ ہمارے ملک میں حجاب صرف مسلمان عورتیںہی نہیں، بلکہ دوسرے مذاہب کی عورتیں بھی حجاب کا اہتمام کرتی ہیں۔ اوراسکو چاہت و قدر کی نگاہ سے بھی دیکھا جاتا ہے۔ مذہب اسلام نے تو خواتین کی عفت و سلامتی کے تحفظ کی خاطر حجاب کو لازم قرار دیا ہے۔اسلام نے ابتداء سے ہی خواتین کی عزت و وقار کو ملحوظ رکھا ہے، جبکہ مذہب اسلام کی آمد سے قبل معاشرہ میں خواتین کی کوئی اہمیت نہیں تھی۔ قرآن مجید اور حضور نبی کریم (ا) کی احادیث شریفہ کے ذریعہ حجاب کی اہمیت ثابت ہے۔ جیسا فرمایا گیا ہے۔ ایک مقام پر اﷲتعالیٰ نے ارشاد فرمایا ہے: ’’اور جب تم ان (ازواج مطہرات) سے کوئی سامان مانگو تو ان سے پس پردہ پوچھا کرو یہ (ادب) تمہارے دلوں کیلئے اور انکے دلوں کیلئے بڑی طہارت کا سبب ہےO‘‘۔(احزاب ۵۳)
میک اپ کرکے، بن سنور کر بازار یا باہر کسی جگہ جانا منع ہے۔ زینت، صرف شوہروں کیلئے ہونی چاہئے۔ ہاں محرموں کے سامنے (اگر فتنہ کا اندیشہ نہ ہو) آنے میں کوئی حرج نہیں۔’’اور وہ اپنے بناؤسنگھار کو کسی پر ظاہر نہ کیا کریں سوائے اپنے شوہروں کے‘‘۔ (نور۳۱)چلتے ہوئے کوئی ایسی علامت نہیں ہونی چاہئے جس سے لوگ متوجہ ہوں مثلاً پاؤں زور سے مارنا، یا اس طرح کا زیور جس سے آواز پیدا ہو، پرفیوم عطریات جس سے لوگ خصوصی توجہ شروع کریں۔ ارشاد ربانی ہوتا ہے: ’’ان کا وہ سنگھار معلوم ہوجائے جسے وہ (حکم شریعت سے) پوشیدہ کئے ہوئے ہیں‘‘۔ (نور۳۱)
ایسی چادر، دوپٹہ اوڑھیں جس سے بدن کے اعضا سینہ گردن بال ظاہر نہ ہوں۔ ارشادربانی ہے: ’’اور وہ اپنے سروں پر اوڑھے ہوئے دوپٹے (اور چادریں) اپنے گریبانوں اور سینوں پر بھی ڈالے رہا کریں‘‘۔ (نور۳۱) ۔ ا رشادِ ربانی ہے:’’(باہر نکلتے وقت) اپنی چادریں اپنے چہروں پر ڈال لیا کریں یہ اس بات کے قریب تر ہے کہ وہ پہچان لی جائیں‘‘۔(احزاب۵۹)بن سنور کر باہر نکلنا اسلام سے پہلے (جاہلیت) کا طریقہ ہے، اسلام کے بعد ایسا کرنا گویا جاہلیت کی طرف پلٹناہے۔ ارشاد ربانی ہوتا ہے:’’اورپرانی (پہلی) جاہلیت کی طرح زیب و زینت کا اظہار مت کرنا‘‘۔ (احزاب۳۳)
حجاب میں وقار ہے: آپ(ا) کی بعثت کا مقصد، مکارم اخلاق کی تکمیل بھی ہے۔ آپ(ا) نے ہر طریقہ سے اخلاق و آداب اور فضائل کی دعوت دی۔ رذائل و برے اخلاق سے بچنے کی ہر مکن طریقہ سے تلقین فرمائی۔ اسطرح شریعت محمدیہ (ا) ہرلحاظ سے کامل و اکمل ہو کر سامنے آئی۔ اب وہ اپنی تکمیل و ترتیب کیلئے مخلوق کی جانب سے کسی کاوش و کوشش کی محتاج نہیں، کیونکہ رب کی جانب سے نازل کردہ شریعت جو اپنے بندوں کی اصلاح کے طریقوں سے خوب باخبر اور ان کیلئے بے پایاں رحمت والی ہے۔ رسول اکرم (ا) کو جن اعلیٰ اخلاق کے ساتھ مبعوث کیا گیا ان میں ایک بلند مرتبہ کا خلق، حیا ہے جسے آپ (ا) نے ایمان کا جز اور اس کی شاخوں میں سے ایک اہم شاخ قرار دیا۔ اس میں شک کی کوئی گنجائش بھی نہیں کہ عورت کا اپنے چہرے اور جسم کے دیگر پرکشش مقامات کو ڈھانپ کر باحجاب رہنا ہی اس کیلئے بہت بڑا وقار ہے، جس میں اس کا بے مثال حُسن پوشیدہ ہے۔
شرعی حجاب کا اہتمام: عورتوں کے حجاب کا بیان قرآن پاک کی تقریباً سات (۷) آیات میں آیا ہے اور تقریباً ستر(۷۰) سے زیادہ احادیث شریفہ میں قولاً وعملاً حجاب کے احکام بتلائے گئے ہیں، اتنی کثرت سے حجاب کے بارے میں احادیث کا وارد ہونا اس کی اہمیت پر بین دلیل ہے،پھر صحابیات کے نزدیک حجاب کی اس قدر اہمیت رہی کہ کسی موقع پر بغیرحجاب رہنا گوارا نہ کرتی تھیں، ایک صحابیہ کا واقعہ آتا ہے کہ راستہ سے جارہی تھیں، حجاب کے حکم کی خبر سنی تو وہیں کنارے کے پاس بیٹھ گئیں اورچادر منگوائی، پھرچادر اوڑھ کر اپنی منزل کی طرف روانہ ہوئیں۔اسلام میں کسی بھی عورت کو اس بات کی ہرگز اجازت نہیں ہے کہ بازار میں چہرہ کھول کر اپنا حسن وجمال دکھاتی پھرے، حسن وجمال کا تمام دارومدار چہرہ پر ہے اور اصل فریفتگی چہرہ سے ہے۔ اسلئے شریعت نے زنا کا دروازہ بند کرنے کیلئے نامحرم کے سامنے چہرہ کھولنا حرام قرار دیا، عورت کیلئے حجاب کا جوحکم ہے اس میں چہرہ بھی داخل ہے، اصل حکم ڈھاکنے کا ہی ہے اور زینت میں عورت کے عمدہ کپڑے یازیور بھی داخل ہے اور ظاہر ہے کہ چہرہ اور سامانِ زینت کپڑے زیور وغیرہ کا حجاب،برقعہ اور اس کے مثل سے ہی حاصل ہوسکتا ہے، اسلئے مسلمان عورتوں کیلئے حجاب کی فرضیت پورا کرنے کیلئے برقعہ یا اس جیسا حجاب کے تقاضہ کو پورا کرنے والا کوئی کپڑا پہننا واجب و ضروری ہے۔اللہ تعالیٰ تمام اسلامی مستورات کو ہمیشہ باحجاب رہنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین
zubairhahsmi7@yahoo.com