اسلام اور مسلمانوں کے خلاف ایک اور سازش

   

مولاناسید احمد ومیض ندوی
اسلام اور مسلمانوں کے خلاف سازشوں کا سلسلہ روز اول سے تواتر کے ساتھ جاری ہے، سب سے زیادہ جس راستہ سے اسلام اور مسلمانوں کے خلاف پروپیگنڈہ کیا جاتا ہے وہ دہشت گردی ہے، اقوام عالم کو اسلام سے متنفر کرنے کے لئے نائین الیون جیسا ڈرامہ رچاگیا،بعد میں ساری دنیا جان گئی کہ یہ صیہونی وصلیبی کارپردازوںہی کی کارستانی تھی، دنیا بھر میں اسلام کے خلاف نفرت کا ماحول بنانے کے لئے اس وقت صلیب وصیہون اور ہنود کا تکون متحدہوچکا ہے،داعش کے نام پر جوکچھ ہنگامہ برپاکیا گیا وہ بھی انہی سازشوں کا حصہ ہے،نیوزی لینڈ کے حالیہ حملوں کے بعد سارے عالم اور بالخصوص یوروپ میں مسلمانوں کے تعلق سے ہمدردی کی ایک لہر اٹھی تھی،ساری دنیا جان چکی تھی کہ مسلمان دہشت گرد نہیں ہوتے، بلکہ انہیں دہشت گردی کا نشانہ بنایا جاتا ہے، دنیا پہلی مرتبہ اس بات کا اعتراف کرنے پر مجبور تھی کہ صرف مسلمانوں کو دہشت گردی کے لئے مورد الزا م ٹھیرانا صحیح نہیں ہے، بلکہ حقیقی دہشت گرد صلیب وصیہون کے فرزند ہیں، جنہوں نے ساری دنیا کو اپنی دہشت گردی کی آماجگاہ بنارکھا ہے۔
گذشتہ دنوں سری لنکا میں ہوئے حملوں کا سرا بھی صلیبی وصیہونی دہشت گردی ہی سے جاملتا ہے، انسانی تاریخ کے اس بدترین حملہ میں جس میں دوسوسے زائد بے قصور شہری موت کی گھاٹ اتاردئے گئے بظاہر عیسائی طبقہ کو نشانہ بنایا گیا ہے یہ ایک منصوبہ بند حملہ تھا، اس حملہ کے بعد وہی ہوا جو عام طورپر ہوا کرتا ہے، ملک کی خفیہ ایجنسیاں ابھی تحقیقات ہی کے مرحلہ میں تھیں کہ عالمی میڈیا میں ایک مسلم تنظیم جماعت التوحید کانام گردش کرنے لگا،جبکہ بعض ایسی ویڈیوز اور شواہد دستیاب ہوئے ہیں جن سے صاف اشارہ ملتا ہے کہ یہ سری لنکا کے بدھسٹوں کی کارستانی ہے۔

حملہ کے فوری بعد حکومت ہند کی جانب سے جوبیان آیا وہ دلچسپ ہونے کے ساتھ انتہائی حیرت انگیز بھی ہے، حکومت ہند نے حملہ کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ ہماری خفیہ ایجنسیوں نے دوہفتے قبل ہی سری لنکائی حکومت کو خبردار کردیا تھا کہ ملک میں دہشت گردانہ حملے ہوسکتے ہیں، اگر فی الواقع یہ بیان درست ہے تو اس سے ہماری خفیہ ایجنسیوں کی ماہرانہ صلاحیتوں کا اندازہ ہوتا ہے، لیکن حیرت ہے کہ بیرون ملک ہونے والے حملوں سے دوہفتے قبل آگاہ ہونے والی خفیہ ایجنسیاں ملک میں پیش آئے پلوامہ حملہ سے بے خبر رہیں،مودی سرکار کی ہمیشہ کوشش رہی ہے کہ پڑوسی ممالک کو اپنا ہمنوا بنالیا جائے، تاکہ وہ آر ایس ایس کی فرقہ وارانہ سیاست سے اتفاق کریں، نیپال کو کروڑں کا تعاون کرکے اپنا ہمنوابنانے کی سعی کی گئی لیکن کامیابی نہ مل سکی، اس کے بعد سری لنکا کا رخ کیا گیا تاکہ اسے ہندوتوا کا ہمنوا بنایاجائے، سری لنکا کی اکثریت بدھ مت کے پیروکاروں کی ہے جو ہمیشہ مسلمانوں سے نفرت کرتے آئے ہیں، مودی سرکا ر کے لئے یہ سنہری موقع تھا کہ آسانی سے وہاں فرقہ وارانہ ماحول پیدا کیا جائے،سری لنکامیں مسلمان کل آبادی کا دس فیصد ہیں، اور جماعت التوحید کے پلیٹ فارم سے خاموش دعوتی کام انجام دیتے آرہے ہیں، اُن کی دعوتی کوششوں کے مقامی آبادی پر خوشگوار اثرات بھی مرتب ہورہے تھے، اور لوگ بتدریج دامن اسلام سے وابستہ ہورہے تھے،

یہ صورتحال ایک طرف صلیب وصیہون کے فرزندوں کے لئے ناقابل برداشت تھی تودوسری جانب ہندوستان کی فرقہ پرست حکمراں جماعت کو بیچین کرنے والی تھی، چناںچہ فرقہ پرست حکمراں ٹولہ کو خدشہ لاحق ہوگیا کہ کہیں پڑوسی ملک اسلام کی آماجگاہ نہ بن جائے،اب سری لنکا میںعالمی طاقتوں کے لئے اسلام اور مسلمانوں کے خلاف سازش رچنے کے علاوہ کوئی راستہ نہ تھا، چناںچہ منصوبہ بند طریقہ سے دھماکے کرائے گئے اور دھماکوں کے فوری بعد جماعت التوحید کی جانب شک کی سوئیاں گھمائی جانے لگی، بات یہیں پر ختم نہیں ہوئی بلکہ بعض صیہونیت نواز عرب چینلوں نے یہاں تک کہنا شروع کردیا کہ جماعت التوحید کا تعلق عالمی یونین برائے اسلامی اسکالر سے ہے، جس کے سربراہ ممتاز مفکر علامہ یوسف القرضاوی ہیں، نام نہاد صیہونیت نواز عرب چینلوں نے جھوٹی خبر کے ساتھ علامہ یوسف القرضاوی،مولانا سلمان حسینی ندوی اور ڈاکٹر عادل الحرازی کی ایک تصویر بھی چلائی اور یہ کہا کہ اس دہشت گردانہ حملہ کو انجام دینے والے سرغنہ زہران ہاشم نے حملہ سے کچھ روز پہلے دوحہ قطر میں علامہ القرضاوی سے ملاقات کی تھی اور ناظرین کو یہ تاثر دینے کی کوشش کی کہ القرضاوی کے ساتھ موجود لوگ ہی دہشت گردانہ کارروائی کے ماسٹر مائنڈ ہیں، جبکہ جھوٹی خبر کے ساتھ جس تصویر کو چلایا گیا وہ چارسال قبل فروری 2016کی ہے، جب ڈاکٹر عادل الحرازی اور سید سلمان حسینی ندوی نے علامہ یوسف القرضاوی سے ان کے دفتر میں ملاقات کی تھی، اسلام دشمن چینلوں کا اس تصویر کو تازہ قراردے کر اُسے حالیہ سری لنکائی حملوں سے جوڑنا کس قدر شرانگیز حرکت ہے اس کی وضاحت کی ضرورت نہیں، اس پرانی تصویر کا سہارا لے کر مذکورہ چینل نے یہ تاثر دیا کہ حملہ کے ذمہ دار نے حملہ سے کچھ قبل علامہ یوسف القرضاوی سے ملاقات کی تھی، دنیا جانتی ہے کہ یہ تینوں عالم اسلام کی ایسی محترم شخصیات ہیں کہ جن کے بارے میں انتہا پسندانہ نظریات کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا، علامہ یوسف القرضاوی مشہور مفکر،نامورفقیہ، اور عالم اسلام کے عظیم داعی ہیں، جو ہمیشہ اعتدال اور وسطیت کاپیغام دیتے ہیں، وہ الاخوان المسلمون کے ممتاز قائدین میں شمار کئے جاتے ہیں،

حق گوئی وبے بیباکی اور فکر اسلامی کی صحیح ترجمانی ان کا وصف خاص ہے، یہ الگ بات ہے کہ بعض خلیجی حکمراں اُنہیں اپنے اقتدار کے لئے خطرہ تصور کرتے ہیں،صلیبی وصیہونی طاقتوں کا اصل منشا اسلامی قیادت کو بدنام کرکے اُسے دہشت گردی میں ملوث کرنا ہے، عالمی یونین برائے مسلم اسکالرس علماء کا وہ عالمی وفاق ہے جس سے دنیا بھر کے ممتاز علماء وابستہ ہیں، فرزندان صلیب کی کوشش ہے کہ یہ وفاق دہشت گرد قرارپائے اور اس سے وابستہ چوٹی کے علماء مطعون ہوجائیں، نائین الیون کے بعد داعش کا حربہ بھی اسی مقصد کے تحت استعمال کیا گیا، داعش کو خود صیہونی طاقتوں نے برپا کیا تھا، اور اس کے ذریعہ اسلامی خلافت کا نہایت مکروہ چہرہ لوگوں کے سامنے پیش کیا گیا،تاکہ لوگ اسلامی نظام خلافت سے خوفزدہ ہوجائیں، حالیہ سری لنکا حملے بھی دشمنوں کی انہی سازشوں کا تسلسل ہے، اس کا ایک ثبوت یہ ہے کہ ان حملوں کے بعد سری لنکا میں نقاب پر پابندی عائد کردی گئی، سری لنکائی حکومت نے اعلان کردیا کہ کوئی عورت چہرہ ڈھک کر باہر نہیں نکل سکتی، سری لنکن وزیر اعظم کا کہنا ہے کہ یہ قدم سیکورٹی کے نقطہ نظر سے اٹھایا گیا ہے، حکومت سری لنکا نے نقاب پر پابندی کے اپنے اقدام کو درست قراردیتے ہوئے یہ دلیل دی ہے کہ نقاب اسلامی روایات کا حصہ نہیں ہے،یہ ایسا ہی ہے جیسا موجودہ حکومت ہند نے طلاق ثلاثہ پر امتناع عائد کرتے ہوئے کہا تھا کہ طلاق ثلاثہ قرآنی اصولوں کے خلاف ہے، کونسا عمل اسلامی اصولوں کے خلاف ہے اور کونسا موافق ہے، اس کی تعیین کسی حکومت یا عدالت کا کام نہیں ہے یہ توماہرین علوم اسلامیہ کی ذمہ داری ہے لیکن حیرت ہے کہ جنہیں اسلام کے ابجد سے تک واقفیت نہیں ہے وہ فیصلہ کررہے ہیں کہ نقاب اسلامی روایات کا حصہ نہیں ہے، قرآن مجید میں ایک سے زائد مرتبہ عورتوں کو حجاب کا حکم دیا گیا ہے، اسی طرح نبی رحمت ﷺ نے بھی سختی کے ساتھ حجاب کی تاکید فرمائی ہے، حجاب اسلامی معاشرت کا ایسا اٹوٹ حصہ ہے جوکسی طرح اسلامی تہذیب سے جدانہیں کیا جاسکتا۔
سری لنکائی حکومت کے اقدام سے شہ پاکر ہندوستان کی ایک فرقہ پرست جماعت شیوسینا نے بھی حکومت سے برقعہ پرپابندی کا مطالبہ کرڈالا اس کا کہنا ہے کہ جب سری لنکا میں نقاب پر پابندی لگ سکتی ہے تو ہندوستان میں کیوں نہیں؟ شیوسینا کے ترجمان سامنا میں اس کے مدیر سنجے راوت نے لکھا ہے کہ ’’راون کی لنکا میں برقعہ پر پابندی لگ چکی ہے،رام کے ایودھیا میں یہ پابندی کب لگے گی‘‘ سنجے راوت نے نقاب پہننے والی خواتین کو قومی سلامتی کے لئے خطرہ قراردیتے ہوئے لکھا ہے کہ اس پر پابندی لگانے کے لئے سرجیکل اسٹرائیک جیسے حملہ کی ضرورت ہے، چناںچہ شیوسینا کے اس مطالبہ کے بعد ملک میں نقاب اور برقعہ موضوع بحث بن گیا ہے، ہر شخص جانتا ہے کہ برقعہ کا مقصد ناموس نسواں کا تحفظ ہے، عام طور پر برقعہ پوش خواتین ان خواتین کے مقابلہ میں زیادہ مامون ومحفوظ ہوتی ہیں جو بے پردہ گھومتی ہیں، برقعہ کا مقصد مجرمانہ سرگرمیوں کے لئے اپنی شناخت کو چھپانا نہیں جیسا کہ عام تاثر دیا جارہا ہے، اگر کچھ جرائم پیشہ عناصر مجرمانہ سرگرمیوں کو انجام دینے اپنی شناخت چھپانے کے لئے برقعہ کا استعمال کرتے ہیں تو چند شرپسند وں کایہ عمل برقعہ پر امتناع کا جواز نہیں بن سکتا، ورنہ فوجی وردی پر بھی امتناع عائد ہوناچاہئے اس لئے کہ بہت سے مجرم فوجی وردی پہن کر دہشت گردانہ سرگرمیاں انجام دیتے ہیں، اگر کوئی پولس والا وردی میں ڈکیتی کرتے ہوئے یا رشو ت لیتے ہوئے پکڑا جائے توکیا وردی پر پابندی لگائی جائے گی، اسی طرح اگر کوئی جنس پہن کر دہشت گردی کو انجام دے تو کیا جنس پر پابندی عائد کردی جائے گی؟ ظاہر ہے یہ سراسر احمقانہ سونچ ہے، سری لنکن حکومت کو جاننا چاہئے کہ اب دہشت گردی کسی خاص لباس کی محتاج نہیں رہی، کھلے عام ساری دنیا کے نگاہوں کے سامنے دہشت گردانہ عمل انجام دیاجاتا ہے، حالیہ دنوں میں نیوزی لینڈ میں جو بدتردین دہشت گردی کا مظاہرہ ہوا اسے صیہونی دہشت گرد نے فیس بک پر لائیوساری دنیا کے سامنے انجام دیا، اس نے نہ رات کا سہارا لیا اور نہ ہی اپنی دہشت گردانہ سرگرمی کو مخفی رکھنے کی کوشش کی، پتہ چلاکہ دہشت گردی کا تعلق نہ کسی خاص مذہب سے ہے اور نہ ہی خاص لباس سے بلکہ یہ ایک ذہنی جنون ہے جس میں مبتلا ہوکر آدمی بربریت کا مظاہر ہ کربیٹھتا ہے، یہ مغربی میڈیا کی اسلام دشمنی ہے کہ جب بھی کوئی دہشت گردی کا واقعہ رونما ہوتا ہے اور اس میں کسی مسلمان کا نام آتا ہے توفورا اسے اسلام اور اسلامی لباس سے جوڑدیا جاتا ہے،تاکہ عام لوگوں کو اسلام سے متنفر کردیا جاسکے۔

برقعہ پر پابندی بنیادی انسانی حقوق کی صریح خلاف ورزی ہے، سری لنکا کا دستور بھی اس کی اجازت نہیں دیتا، اسی طرح ہندوستان کا سیکولر دستور بھی کسی کے بنیادی حقوق سلب کرنے کی اجازت نہیں دیتا، سری لنکا کے صدر نے ماورائے دستور ہنگامی اختیارات استعمال کرتے ہوئے یہ قدم اٹھایا ہے، ہندوستان میں جولوگ نقاب پر پابندی کا مطالبہ کرتے ہیں انہیں جاننا چاہئے کہ دستور کی رو سے ان کا مطالبہ سراسر غلط ہے، برقعہ،داڑھی،لباس وپوشاک،وضع وقطع سے تعلق رکھنے والی چیزیں دستور سے حاصل ہونے والی مذہبی آزادی کا حصہ ہیں، حالیہ عرصہ میں دفعہ 377پر فیصلہ صادرکرتے ہوئے سپریم کورٹ نے واضح کردیا ہے کہ کسی کی پسند پر کوئی پابندی نہیں لگائی جاسکتی اس لئے کہ کون کیا کھائے گا،کیا پہنے گا یہ اس کی پسند کی بات ہے، اور پسند اور انتخاب آدمی کا بنیادی حق ہے جو کسی سے چھینا نہیں جاسکتا، برقعہ اور اسلامی وضع قطع پر اعتراض کرنے والے دراصل خوف کی نفسیات کا شکار ہیں، جبکہ دنیا بھر میں دہشت گردی کے ایسے سینکڑوں واقعات رونما ہوتے ہیں جن کو انجام دینے والوں کا اسلامی لباس اور وضع قطع سے دور کا بھی تعلق نہیں ہوتا۔
بھلا کوئی بتائے کہ دنیا میں پیش آئے دوعالمی جنگوں کا اسلام سے کیا تعلق تھا،کیا ان جنگوں میں برقع اور نقاب کا کوئی رول تھا؟ ہٹلر نے 20لاکھ انسانوں کا قتل کیا،کیا وہ نقاب کا قائل تھا؟
عراق وافغانستان میں جن گورے انگریزوں نے لاکھوں مسلمانوں کو قتل کرڈالا انھیں کس نقاب نے اس پر آمادہ کیا،گاندھی جی کا قاتل گوڈسے کیا اسلام سے متاثر تھا، مالیگاوں بم دھماکہ کی مجرم پرگیہ سنگھ کیا نقاب پہنا کرتی ہے؟ گجرات فسادات میں ہزاروں مسلمانوں کو قتل کرنے والے کونسے اسلام کے نام لیوا تھے؟یہ محض پروپیگنڈہ ہے کہ اسلام اور دہشت گردی کو لازم وملزوم سمجھ لیا گیا۔