سید نوید اختر
فی زمانہ خاص طور پر مغربی میڈیا اور ہمارے پاس گودی میڈیا اس بات کیلئے ایڑی چوٹی کا زور لگارہی ہے کہ اسلام میں عورتوں کو قیدی بناکر رکھا جاتا ہے ، حالانکہ حقیقت اس سے بالکل مختلف ہے ۔ اسلام میں عورتوں کو ممتاز مقام حاصل ہے ۔ بحیثیت ماں اس کے قدموں تلے جنت رکھی گئی ہے بغیر ماں کی رضامندی کے کوئی شخصی جنت میں داخل نہیں ہوسکتا ۔ کوئی شخص چاہے وہ کتنا ہی ولی صفت کیوں نہ ہو اگر اس کی ماں اس سے راصی نہ ہو تو اس کا داخلہ جنت میں ممنوع قرار دیا گیا ہے ۔ کتنے ہی بے شمار واقعات سے تاریخ اسلام بھری پڑی ہے جس میں ماں کی عظمت اور اس کی اہمیت کا پتہ چلتا ہے ۔ چنانچہ ایک بار جب حضرت موسی السلام اللہ سے کلام کرنے کوہ طور پر جارہے تھے تو آواز آئی کہ اے موسی ذرا سنبھل کر آنا کہ اب وہ ہاتھ نہیں رہے جو آپ کے حق میں اُٹھا کرتے تھے یعنی کچھ دن قبل ہی موسی علیہ السلام کی والدہ محترمہ انتقال فرما گئی تھیں ۔ اسی طرح ایک صحابیؓ کا واقعہ ہے انہوں نے اللہ کے رسول ﷺ سے پوچھا کہ یا رسول اللہ ! میں نے اپنے کاندھے پر اپنی والدہ کو اُٹھاکر پورا حج تکمیل کیا ہے تو میری ماں کا جو مجھ پر حق تھا کیا وہ حق پورا ہوگیا ۔ آپؐ نے جواب دیا جب تو پیدا ہوا تھا تو تیری ماں کی زبان سے جو کر رہ کی آواز نکلی تھی اتنا بھی حق ادا نہیں ہوا ۔ متعدد احادیث اور قرآن پاک میں بھی ماں کے حق کے بارے میں فضائل آئے ہیں۔ اسی طرح بحیثیت بیوی بھی عورتوں کو ایک خاص مقام عطا کیا گیا ہے ۔ بیوی کو گھر کی ملکہ قرار دیا جاتاہے چنانچہ قرآن میں اللہ فرماتا ہے اور بیویوں کے ساتھ خوش اسلوبی سے گذر بسر کیا کرو ۔ اگر وہ تمہیں ناپسند ہو تو عجب کیا ہے کہ تم ایک شئے کو ناپسند کرو اور اللہ تعالی اس کے اندر بڑی بھلائی رکھ دے ۔ جبکہ ایک حدیث میں ام المونین حضرت عائشہ صدیقہ ؓ سے روایت ہے کہ مسلمانوں میں اس کا ایمان زیادہ کامل ہے جن کے اخلاق اور برتاؤ سب کے ساتھ بہت اچھا ہو اور خاص کر بیوی کے ساتھ جس کا رویہ لطف و محبت اور نرمی کا ہو ۔ حجۃ الوداع کے موقع پر بھی آپؐ نے جو خطبہ دیا تھا اس میں بھی خاص طور پر آپؐ نے فرمایا کہ لوگو اپنی بیویوں کے بارے میں اللہ سے ڈور ۔ اسی طرح لڑکی یا عورت بحیثیت بہن کے بھی اسلام نے بہت سارے حقوق متعین کئے ہیں ۔ اسلام واحد مذہب ہے جس نے وراثت میں بہنوں کو حصہ دار بنایا ہے اسلام بہن کے رشتے کو ایک مقدس اور اہم رشتہ قرار دیتا ہے اور اس کے حقوق کی ادائیگی پر زور دیتا ہے ہمارے نبی حضرت محمدؐ نے اپنے رضاعی بہن حضرت ثیما بنت حارث کے ساتھ حسن سلوک کا ایسا مظاہرہ کیا تھا کہ صحابہؓ حیرت اور رشک سے دیکھتے رہ گئے تھے ۔ چنانچہ غزوہ حنین کے موقع پر حضرت شیما بنت حارث کو قید کر کے آپ کے سامنے لایا گیا تو آپ نے نہ صرف اپنی بہن کو پہچان لیا بلکہ آپ کی خوب آؤ بھگت کی یہاں تک کہ اپنی چادر مبارک بہن کیلئے بچھادی اور قیامت تک آنے والی اپنی امت کو یہ تعلیم دے دی کہ اپنی بہنوں کے ساتھ کس طرح کا سلوک کیا جانا چاہئے ۔ اس طرح اسلام نے بیٹی کو رحمت قرار دیا ہے ۔ زمانہ جاہلیت میں بیٹیوں کو زندہ دفن کردیا جاتا تھا لیکن یہ مذہب اسلام ہی ہے جس نے یہ تعلیم دی کہ جس کی تین بیٹیاں ہوں اور وہ ان کے ساتھ اچھا سلوک کرے تو اس کیلئے جنت واجب ہوجاتی ہے عرض کیا گیا اور دو ہوں تو ۔ ؟ فرمایا دوہوں تب بھی ، عرض کیا گیا اگر ایک ہو تو ؟ فرمایا اگر ایک ہو تو بھی ۔ اسلام نے بیٹی کو بڑی عظمت بخشی ہے اس کا وقار بلند کیا ہے بیٹی اللہ کی رحمت ہوتی ہے گھر کی رونق ہوتی ہے ماں کا سکون اور بھائیوں کی لاڈلی ہوتی ہے اپنی کفالت کرنے والوں کو جہنم کی آگ سے بچانے والی انہیں جنت دلانے والی ہوتی ہیں فرشتوں کی طرف سے سلامتی کی دعائیں پانے کا ذریعہ ہوتی ہیں ۔ قیامت تک کیلئے اللہ کریم کی مدد حاصل کرنے کا سبب ہوتی ہیں جس کی خوشنودی بروز قیامت والدین کو محشر کی ہولناکیوں سے بچا کر خوشیاں دلانے والی ہوتی ہیں ۔ اسلام نے بیٹی پر خرچہ کرنے کو صدقہ قرار دیا ہے ۔