تنویر عزیز اکبر باغ
ہمارا مذہب اسلام نے عورت کو جو عزت و توقیر بخشی اور اس سے جو مقام عطا کیا ذریعہ خاندان کے نظام کو پاکیزگی کے ساتھ ساتھ بے پناہ طاقت بھی عطا کی گئی ہے۔ کیونکہ معاشرے کی عفت، عصمت اور حرمت کا انحصار صرف اور صرف خاندان کی عفت ، عصمت اور حرمت سے مشروط ہے اور آج کے اس دور میں رشتوں کی پہچان اور احترام و تقد س ختم ہو گیا اور اس طرح کی ہولناک مثالیں سامنے آ رہی ہیں انسانیت کا سر شرم سے جھک گیا۔ حضور ؐنے فرمایا تھا کہ نکاح میر کی سنت ہے اس کو آسان بنا لیکن آج کے دور میں شادی کرنا گویا جوئے شیر لانے کے برابر ہو گیا ہے۔ آج نکاح کو ایک مسئلہ بنادیا گیا ہے۔ بہت سے اللہ والے لوگ نکاح تو نام مسجد میں کرتے ہیں اور دینے کا اہتمام کسی بڑی پانچ ستارہ ہوٹل میں کرتے ہیں اور ٹرک بھر بھر کے سامان جہیز بھی وصول کر لیتے ہیں۔ آج غریب لڑکیوں کی شادی ایک مر بن گئی ہے۔ غریب والدین اپنے آنکھوں کے سامنے اپنی لڑکیوں کو بوڑھی ہو تے لکھ رہے ہیں اور خون کے آنسو پی رہے ہیں، مگر کسی کو ایسے لوگوں کا احساس نہیں ہے اور نہ ہی کوئی انہیں تسلی دینے والا ہے وہ ایسے ہی سکتے سسکتے دم توڑ دیتے ہیں۔پری بانہوں میں بھی ایسے بہت سے واقعات دیکھی اور سنی ہوں۔ ایسے لوگوں کے بارے میں من کر خون کے آنسو روتی ہوں۔ اگر خدا نے امیروں کو دولت سے نوازا توالے بھی یہ حق ہیکہ وہ ایسے لوگوں کی مدد کریں۔اگر امیر لوگ اپنی لڑکیوں کی شادی میں کش نہیں کر یں تو جہیز کی لعنت ختم ہو سکتی ہے۔ اگر وہ چاہیں تو نکاح کو آسان بنالتے ہیں۔ اسی لئے ہمارے معاشرے سے سب سے پہلے جہیز کی لعنت کو روکنے کے امت سے سخت اقدامات کو اپنانا چاہئے ، تب ہی نکاح آسان ہو سکتا ہے۔