اسلام کی انسانیت نواز تعلیمات اور مذہبی رواداری کا مغربی مفکرین و مؤرخین نے بھی اعتراف کیا ہے۔ مغربی مؤرخین میں تعصب، جانبداری اور اسلام سے متعلق ان کے دلوں میں نفرت و عداوت کا پہلو نمایاں طورپر نظر آتا ہے، تاہم ان میں چند ایسے بھی ہیں، جنھوں نے عصبیت اور جانبداری کو بالائے طاق رکھتے ہوئے حقیقت پسندانہ انداز میں اسلام کی وسعت نظری اور اسلامی عہد حکومت میں غیرمسلم اہل علم کی قدر دانی کا اعتراف کیا ہے۔ چنانچہ مغربی دنیا کی شہرت یافتہ شخصیت مسٹر ڈرابر کہتے ہیں کہ خلفاء کے زمانے میں عیسائی اور یہودی اہل علم کا نہ صرف احترام کیا جاتا تھا، بلکہ بڑے اور اہم امور ان کو تفویض کئے جاتے تھے اور حکومت میں بڑے مناصب سے ان کو نوازا جاتا تھا۔
مشہور مؤرخ ولز اسلامی تعلیمات پر بحث و تحقیق کے ضمن میں کہتا ہے کہ اسلامی تعلیمات نے ساری دنیا میں شریفانہ اور متوازن عادات و اطوار کی داغ بیل ڈالی اور اس نے ساری انسانیت میں شرافت اور وسیع النظری کی روح پھونکی، نیز اسلامی تعلیمات، بلند انسانی اقدار کی حامل اور قابل عمل ہیں اور اس نے ایک ایسے انسانی گروہ کو وجود بخشا، جس میں سنگدلی اور عام ظلم و ستم کی کوئی چیز پائی نہیں جاتی۔
مارک سایس، ہارون رشید کے دور میں اسلامی سلطنت کا ذکر کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ عیسائی، بت پرست، یہودی اور مسلمان سب حکومت میں برابر کام کیا کرتے تھے۔
لیفی بروفنال اپنی کتاب ’’دسویں صدی میں اسلامی اسپین‘‘ میں لکھتے ہیں کہ معاہدات اور دستاویزات لکھنے والے یہود و نصاریٰ ہوا کرتے تھے اور انھیں مملکت کے انتظامی امور اور جنگی معاملات میں اختیارات ہوا کرتے تھے اور انھیں مملکت کے انتظامی امور اور جنگی معاملات میں اختیارات حاصل تھے اور بعض یہودی سفارت کے کام انجام دیتے تھے۔
ویٹو، فرانس، اٹلی اور بحر متوسط کے جزائر میں عرب کی جنگوں کی تاریخ میں لکھتے ہیں کہ مسلمان اندلس کے شہروں میں عیسائیوں کے ساتھ نیک برتاؤ کرتے تھے اور عیسائی بھی مسلمانوں کے احساسات کا خیال رکھتے اور وہ اپنی اولاد کا ختنہ کرواتے اور خنزیر کا گوشت نہیں کھاتے تھے۔
ارنالڈ لکھتے ہیں کہ عفو و درگزر کی اسلامی تعلیمات نے ظلم پر مشتمل تمام کاموں کو حرام کردیا اور مسلمان اس کے سخت مخالف ہیں اور ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ مسلمانوں نے اپنی عیسائی رعایا کے ساتھ عدل و انصاف میں کوتاہی نہیں کی۔
جارج سارٹن کہتے ہیں کہ اسلام کو دیگر مذاہب و ادیان میں ممتاز کرنے والی خصوصیت اس کی وسعت نظری، کشادہ دلی اور اس کا توازن ہے اور ہرمقام پر رہنے والے انسان کے لئے پہلی نظر میں اسے قبول کرنا خوشی و مسرت کا باعث ہوتا ہے۔
مسٹر جوسٹاف لوبون کہتے ہیں کہ کسی قوم نے عرب کی طرح مہربان، درگزر کرنے والے وسیع النظر فاتحین جنگ نہیں دیکھے اور نہ ہی ان کے دین کی طرح وسیع النظر کوئی دین دیکھا ہے اور ایک مقام پر کہتے ہیں کہ اسلام تمام مذاہب میں سائنسی تحقیق، علمی اکتشافات، تہذیبی نفوس، عدل انصاف، حسن سلوک اور رواداری میں سب سے زیادہ موزوں ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ اسلام کی آفاقی وسعت نظری، اسلام کو دیگر مذاہب و ادیان میں ممتاز کرتی ہے اور حریت پسندوں کے پاس محبوب بناتی ہے اور اسلام کے اسی موقف نے اسلام کو دیگر مذاہب پر ہمیشہ فائق رکھا ہے۔
مغربی مؤرخین و مصنفین کے اقوال و افکار کے ذکر کا مقصد یہ ہے کہ دشمنان اسلام کو معلوم ہو کہ اسلام کی رواداری اور کشادہ دلی نہ صرف سیرت اور تاریخ اسلام سے ظاہر ہوتی ہے، بلکہ مغربی مصنفین اور مؤرخین نے بھی اس کا اعتراف کیا ہے اور بعض تو گوشہ اسلام میں بھی داخل ہوچکے ہیں۔
اسلام میں عدل و انصاف اور مساوات و حریت کی ایک اہم مثال یہ ہے کہ روم کے عیسائیوں نے یہودیوں کو بیت المقدس میں آنے اور قیام کرنے سے منع کردیا تھا اور کئی صدیوں کے بعد اسلامی خلافت کے سایہ میں انھیں دوبارہ آنے کی اجازت دی گئی۔ اسی طرح بہت سی ذمی اسلامی سلطنت میں مختلف علوم، طب، کیمیاء، نحو، ادب، شعر وغیرہ میں نمایاں مقام حاصل کئے۔ چنانچہ عہد اموی میں اخطل نے شہرت پائی اور فن نقائص میں اس کو فرزدق اور جریر جیسے اسلامی شعراء کے ساتھ نمایاں مقام حاصل تھا، جب کہ وہ ایک نصرانی شاعر تھا۔
اسلامی حکومت میں عقیدہ و مذہب کے قطع نظر ہر مستحق کو اس کا حق دیا جاتا ہے۔ چنانچہ عہد اموی اور عباسی میں عیسائی اطباء خلفاء کے قریب رہے اور بغداد و دمشق کی طبی دانش گاہوں میں وہ نگران مقرر تھے۔ نصرانی طبیب ابن اثال حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کا خاص طبیب تھا اور سر جان آپ کا کاتب تھا۔ اسی طرح جرجیس بن بختیشوع خلیفہ منصور کے قریب تھا، نصرانی سلمویہ خلیفہ معتصم کا طبیب اور بختیشوع بن جبرائیل خلیفہ متوکل کا طبیب تھا۔
اسلامی تعلیمات روز روشن کی طرح واضح اور ساری دنیا کے سامنے کھلی کتاب ہیں۔ ان تعلیمات میں کسی قسم کا ابہام و پوشیدگی نہیں ہے، اس کے باوجود اکثر و بیشتر مغربی مصنفین و مفکرین نے جانبداری اور تعصب سے کام لیا ہے اور آج بازار میں مغربی مصنفین کی سیکڑوں نہیں بلکہ ہزاروں کتابیں موجود ہیں، جس میں اسلام دشمنی کا اظہار کیا گیا ہے اور اس کے دام و فریب میں شدت پسند تو کجا انصاف پسند اور غیرجانبدارانہ مطمح نظر رکھنے والے بھی شکار ہوتے ہیں۔ ہم ان پر صرف جانبداری اور تعصب کا الزام لگاتے ہوئے خاموش نہیں رہ سکتے، بلکہ ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم ان کی غلط فہمی دور کرنے کی کوشش کریں، خواہ ان کی غلط فہمی لاعلمی کی وجہ سے ہو یا دشمنی و عصبیت کی وجہ سے۔ اس غلط فہمی کو دور کرنے میں سب سے اہم رول مسلمانوں کا کردار اور عملی نمونہ ادا کرسکتا ہے۔ جب تک ہم عملی طورپر اسلامی تعلیمات کو اپناکر انسانیت، حریت، آزادی، عدل و انصاف، مساوات، یکجہتی اور رواداری کا نمونہ پیش نہیں کریں گے، اس وقت تک یہ غلط فہمی کے بادل نہیں چھٹیں گے اور یہ بات بھی ذہن میں رکھنا چاہئے کہ جب تک ہمارا معیار بلند نہیں ہوگا، تعلیمی اور معاشی اعتبار سے استحکام قابل رشک نہیں ہوگا، اس وقت تک ہم دنیا پر اثرانداز ہوکر عملی نمونہ بھی نہیں پیش کرسکتے۔