اسلام کا نظام عدل مادی وروحانی ہرطرح سے ایک پاکیزہ معاشرہ کی بنیادرکھتا ہے،اسلام کے نظام قانون کی بنیاداللہ سبحانہ کی حاکمیت کوتسلیم کرنا ہے،حقوق اللہ،حقوق العبادکی تنفیذہی ایک مستحکم ومضبوط ،مصالح پرمبنی اقداروروایات کے قیام کویقینی بناتاہے۔اسلام ایسا معاشرہ تشکیل دیناچاہتاہے جہاں جرائم کا کوئی گزرنہ ہو،ارشادباری ہے’’خبردار! زناکے قریب بھی مت پھٹکوکیونکہ وہ بہت بڑی بے حیائی ہے اوربہت ہی براراستہ ہے‘‘(بنی اسرائیل)اسلام زنا سے بچنے کے لئے ایسی تعلیمات دیتا ہے جوانسان کوزناکے قریب جانے سے بچاتی ہیں، زنا کے قریب کرنے والی بہت سی صورتیں جیسے غیرمحرم عورتوں کے ساتھ اختلاط،بات چیت بلکہ ان کی طرف نگاہ اٹھاکردیکھنے سے بھی منع کرتاہے،عورتوں کوبے پردہ باہرنکلنے،اپنی زیب وزینت اوربنائوسنگھارکواجنبی مردوں پر ظاہرکرنے سے اجتناب کی تاکیدکرتاہے۔اس کے باوجودکچھ انسان جو اللہ سبحانہ کی معرفت اوراس (معرفت)کے تقاضوں کی تکمیل سے محروم رہتے ہیں اور نفس وشیطان کے کیدومکرکے اسیر بنے رہتے ہیں ،دراصل وہی انسانی معاشرہ کے لئے ناسور بن جاتے ہیں ،ظاہرہے ناسورکے علاج کیلئے نشترزنی ضروری ہوجاتی ہے،اسلام انسانوں کو بلاوجہ تکلیف دینے اوراذیت پہنچانے کاحامی نہیںہے لیکن اگرکچھ انسان انسانیت کے لبادہ میں درندوں کوشرمانے لگیں اورانسانی سماج کی پاکیزگی کواپنی ناپاک وناجائزروش سے گندہ کرنے کی کوشش کریں تواسلام نہ صرف اس کا شدید مخالف ہے بلکہ جرائم کے سدباب کے لئے جرم کی مناسبت سے سزائیں بھی تجویزکرتاہے تاکہ سماج سے غیر اخلاقی وغیرانسانی افکارواقوال، عادات واطوارکا خاتمہ ہو۔سزاکامقصودمجرم کویہ احساس دلانا ہے کہ اس نے جو(ناجائز)راستہ اختیارکیاہے وہ اس کے حق میں بھی برا اورانسانی معاشرہ کے حق میں بھی براہے، جسمانی وروحانی اعتبارسے انفرادی شخصی نقصان کے ساتھ ایک صالح اورپاکیزہ معاشرہ کا اجتماعی نقصان بھی ہے ،اس لئے شادی شدہ مردیا عورت زناکا ارتکاب کریں تووہ اسلامی معاشرہ میں زندہ رہنے کے حق سے محروم کردئیے جاتے ہیں،اسلام ان کوصرف قتل کرنے کی نہیں بلکہ سنگسار کرنے کی عبرتناک سزادیتا ہے تاکہ وہ معاشرہ میں نشان عبرت بنیں اور سماج کے فاسدعناصرناجائزوحرام کاموں کے ارتکاب کی جرأت نہ کرسکیں۔جہاں اسلامی نظام حیات نافذہے اس کے برکات وثمرات اسلامی معاشرہ کوضرورحاصل رہتے ہیں،جمہوریت پسند ہمارے ملک میں بھی ملکی قانون کی روسے ان پرگرفت ہواکرتی تھی اورایسے بداطوارافراد معاشرہ میں وقعت واحترام سے محروم ہوجانے کی وجہ سراٹھاکرجینے کے قابل نہیں رہتے تھے، لیکن اب سماج میں مجرم سینہ تان کر چل رہے ہیں ۔یہ ساری خرابیاں مذہب سے دوری، خداوآخرت فراموشی اورملکی قوانین کے نفاذمیں مختلف نقائص کی وجہ سے ہیں،ان خرابیوں نے معاشرہ کی کایا پلٹ دی ہے،پاکیزہ اخلاق واقدارفرسودہ ،بداخلاقی وبداطواری ،بے حیائی وبے خوفی جیسے کریہہ عادات واطوارتہذیب جدید کے خوشنماعنوان سے وجہ افتخارقرارپاگئے ہیں۔اس کے فروغ میں جہاں مغربی آزادطرزمعاشرت نے فسادوبگاڑپیداکیا ہے وہیں اس خرابی وبرائی کے پنپنے میں انٹرنیٹ،سیل فونس وغیرہ کا بھی بڑارول ہے،جسے دیکھووہ اس کے نشہ میں مبتلاء ہے۔کیا بچے کیا بڑے سب پرایسی محویت طاری ہے کہ وہ حال وماحول سے بے خبراوراپنوں کے دکھ دردکے احساس سے محروم ہیں،نوجوان نسل خاص طورپرعدم تعلیم وتربیت کی بنا اخلاقی وانسانی قدروں سے محروم ہے اورو ہ تباہی وبربادی کے دہانے پرپہنچ رہی ہے ۔
آئے دن قتل کی وارداتوں میں اضافہ ہورہا ہے،انسانی جان کی کوئی قیمت نہیں ہے، زنابہت بڑاگناہ حرام وناجائزامرہے،اسلام کے علاوہ دیگرمذاہب میں بھی زنابہت بڑاجرم ہے،کسی انسان کا قتل ساری انسانیت کا قتل ہے،اس باب میں اسلام کے احکام نہایت مفید اورجرائم کے سدباب میں بڑے مؤثر اورنتیجہ خیزہیں جس پرعمل سے انسانی معاشرہ رحمتوں کا گہوارہ بن سکتاہے۔
پچھلے زمانوں میں اسلامی سماج کے علاوہ ملے جلے سماج میں بھی جرائم کا تناسب بہت کم تھا ، زناکے واقعات شاذونادر سنے جاتے تھے اوریہ جرم وگناہ بالغ وسمجھداراوراسکی صلاحیت رکھنے والے مردوعورت کے درمیان ہواکرتاتھا،اکادکاقتل کی وارداتیں بھی سننے میں آتی تھیں جس کی انسانی سماج کے سارے افرادبلا لحاظ مذہب وملت مذمت کرتے تھے اوراب بالغ لڑکیوں کے اغواء، زنا وقتل کے واقعات کے ساتھ نابالغ معصوم پھول جیسی بچیوں کے ساتھ بھی حیوانیت وبربریت اورقتل کے واقعات روزکہیں نہ کہیں انسانیت کوشرمسارکررہے ہیں،ایسی درندگی کہ درندے بھی اس کے ارتکاب کا تصورنہ کرسکیں۔انسانیت کا اس حد تک گرجاناموجودہ احوال کی بناء بعیدازقیاس نہیں۔
ان حالات میں ملک کے سربراہوں کوخاص طورپراسلام کے قوانین جرم و سزاکا سنجیدگی کے ساتھ مطالعہ کرناچاہئے اوران قوانین کے نفاذپربھی غورکرناچاہئے،اسلام کی اولین ترجیح کردارسازی ہے،اس کے باوجودمجرمانہ ذہن رکھنے والے معاشرہ میں انارکی پھیلانے لگیں تواس کے سدباب کیلئے جرم کی مناسبت سے اسلام نے سزائیں تجویزکی ہیں۔ ان احکام کی بنیاد کتاب وسنت ہیں ،اس کی تعمیل میں معاشرہ کے تمام افرادکی صلاح وفلاح کا رازمضمرہے،اس پرشرح صدرنہ ہو تواس بات پرضرورغورہوناچاہئے کہ جرم وسزاکے قوانین سخت سے سخت ہوں تاکہ دوسروں کوعبرت ہواورملک میںامن وآمان برقراررہے۔اسلام کے نظام حیات میں اولاد آدم کے درمیان حقوق مساوات کوبڑی ا ہمیت ہے،قانون کی بالاتری ہرحال میں مقدم ہے،طاقتوراورکمزورسب کیلئے یکساں قانون ہے،قریش کے قبیلہ بنومخزوم کی ایک خاتون سے چوری کا جرم سرزدہوا،قریش کے آمادہ کرنے پراسامہ بن زیدرضی اللہ عنہ بارگاہ رسالت مآب ﷺمیں اس کی معافی کی سفارش کی،آپﷺکے چہرہ انورکا رنگ بدل گیا اورفرمایا تم اللہ کی مقررکردہ حدکومعاف کرنے کی سفارش کرتے ہو؟پھر خطبہ ارشاد فرمایا: کہ تم سے پہلے لوگ اس وجہ سے گمراہ ہوئے کہ جب کوئی خاندانی ومعاشرتی وجاہت رکھنے والا چوری کرتا توا س پرسزانافذنہیں کی جاتی تھی اورکوئی کمزوروضعیف چوری کا مرتکب ہوتا تو اس پرحد کا نفاذکیا جاتا۔(مسلم:کتاب الحدود:۴۴۱۰)
ملک کی ترقی اورتمام ممالک میں ہمارے ملک کی نیک نامی کیلئے ضروری ہے کہ حکمران وعوام سب کے سب دستورکے پابندرہیں،رعایا کے مختلف طبقات اپنے اپنے مذہب پر کاربندرہتے ہوئے مذہب ودستورکی روشنی میں انسانی احترام اورانسانی اقدارکا پاس ولحاظ رکھیں۔ حکومت کے تنظیمی وتعلیمی اورقانونی اداروں پرکسی ایک مذہب کی چھاپ نہ رہے ،خانگی زندگی میں وہ ہرطرح مختارہیں ،پورے ملک میں ایک خاص مذہب کے رنگ کوعام کرنے اوردیگرطبقات کواسی رنگ میں رنگنے کی کوشش ایک سیکولرملک کوزیبا نہیں۔کردارسازی کیلئے ایسا نصاب تعلیم رائج کیا جاناچاہئے جس سے انسانیت کا اکرام اوران کے مذاہب اورمذہبی اداروں کااحترام دلوں میں پیداہو اورتمام باشندے انسانی بنیادوں پرمحبت ومروت ، پیاروالفت، رواداری وحسن اخلاق کا پیکربنیں،اب رہا مذہبی تعلیم تو وہ ہرمذہب کے سربراہوں اوراس کے ماننے والوں کی ذمہ داری ہے، کوئی مذہب نفرت کی تعلیم نہیں دیتا ،اس لئے اس میں بھی اس بات کا لحاظ ضروری ہے کہ مذہبی تعلیم کے ذریعہ نفرت کوہوادیکرمذہب کوبدنام نہ کیا جائے،ان تمام ترکوششوں سے جرائم کی شرح میں ضرورکمی آئے گی، اس کے باوجودایک بڑے ملک میں جرائم کا وقوع ممکن ہے ، ملک میں جرائم کی بڑھتی شرح اس بات کا شدیدتقاضہ کررہی ہے کہ جرائم کے سدباب کیلئے فوجداری جرم وسزاکے قوانین میں ضرورنظرثانی کی جانی چاہئے،اورایسے قوانین مدون ہوناچاہئے جوجرائم پرقابوپانے میں مددگارثابت ہوسکیں اوران قوانین کے نفاذکوبھی اپنے اورپرائے ،حاکم ومحکوم کی تخصیص کے بغیر یقینی بنایا جاناچاہئے اسی سے ملک میں امن وآمان کا بول بالا ہوگا،پیارومحبت کے پرچم تلے تمام رعایا چین وسکون سے رہ سکے گی۔