عوامی مسائل سے حکومت کو دلچسپی نہیں، کانگریس حکومت کی مقبولیت میں کمی
حیدرآباد۔ 28 ڈسمبر (سیاست نیوز) اسمبلی میں بی آر ایس کے ڈپٹی لیڈر ہریش راؤ نے اسمبلی کا سرمائی سیشن کم از کم 15 دن تک جاری رکھنے کا حکومت سے مطالبہ کیا۔ میڈیا سے غیر رسمی بات چیت کرتے ہوئے ہریش راؤ نے کہا کہ کانگریس پارٹی نے ایوان کے وقار کو متاثر کردیا ہے اور اسمبلی اور کونسل کا اجلاس محض رسمی طور پر منعقد کیا جارہا ہے۔ بی آر ایس دور حکومت میں کم از کم 32 دن اسمبلی کا اجلاس منعقد کیا گیا جبکہ کانگریس دور حکومت میں سال میں 20 دن بھی اجلاس منعقد نہیں ہوا۔ انہوں نے کہا کہ اپوزیشن کی جانب سے جن مسائل کو مباحث کے لئے پیش کیا جاتا ہے اسے قبول نہیں کیا جاتا۔ انہوں نے کہا کہ عوامی مسائل پر مباحث سے حکومت خوفزدہ ہے۔ ہریش راؤ نے کم از کم 15 دن تک اجلاس جاری رکھنے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ بزنس اڈوائزری اجلاس میں اس سلسلہ میں نمائندگی کی جائے گی۔ انہوں نے کہا کہ دو سال گذرنے کے باوجود آج تک اسمبلی کی کمیٹیاں تشکیل نہیں دی گئیں۔ ہریش راؤ نے بتایا کہ بی آر ایس کی پہلی میعاد میں 32 دن تک اسمبلی اجلاس منعقد کیا گیا جبکہ کانگریس کے دو سال میں 2024 میں 24 دن اور 2025 میں 16 دن اجلاس منعقد ہوا۔ دو برسوں میں محض 40 دن کے اجلاس کے ذریعہ حکومت نے سرکاری ایجنڈہ کی تکمیل کی ہے۔ ہریش راؤ نے کہا کہ حکومت نے دو برسوں میں اپوزیشن کے ایجنڈہ کو مباحث کے لئے قبول نہیں کیا۔ اسمبلی کے باہر چیف منسٹر اور وزراء اعلان کرتے ہیں کہ وہ عوامی مسائل پر مباحث کے لئے تیار ہیں لیکن اجلاس محض رسمی طور پر سرکاری ایجنڈہ کی تکمیل کے لئے ہوتا ہے۔ دریائے کرشنا کے پانی کے تقسیم میں تلنگانہ سے ناانصافی کے لئے کانگریس کو ذمہ دار قرار دیتے ہوئے ہریش راؤ نے کہا کہ وزیر آبپاشی اتم کمار ریڈی گمراہ کن بیانات جاری کررہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اسمبلی میں آبی تقسیم کے علاوہ کالیشورم اور دیگر مسائل پر بی آر ایس کی جانب سے جدوجہد کی جائے گی۔ انہوں نے کہا کہ اسمبلی میں بی آر ایس ارکان کو اظہار خیال کے لئے مائیک نہیں دیا جاتا۔ انہوں نے کہا کہ اسپیکر کو غیر جانبداری کے ساتھ خدمات انجام دینا چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ اپوزیشن کو الاٹ کی جانے والی پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے صدر نشین کا عہدہ درپردہ طریقہ سے پُر کرلیا گیا ہے۔ بی آر ایس کی جانب سے اسپیکر کو عوامی مسائل کی فہرست پیش کی جائے گی۔ انہوں نے کہا کہ دو سال میں کانگریس حکومت کی مقبولیت میں تیزی سے گراوٹ آئی ہے۔ 1
