اسمبلی انتخابات ‘ الیکشن کمیشن کی ذمہ داری

   

عالم سوز تمنا پیکراں کرتے چلو
ذرہ ذرہ کو شریک کارواں کرتے چلو
اسمبلی انتخابات ‘ الیکشن کمیشن کی ذمہ داری
ملک کی چار ریاستوں اور ایک مرکزی زیر انتظام علاقہ میں انتخابات کے شیڈول کا اعلان کردیا گیا ہے ۔ مارچ کے اواخر سے رائے دہی کا آغاز ہوگا اور 2 مئی کو نتائج کا اعلان کیا جائیگا ۔ الیکشن کمیشن کی جانب سے شیڈول کی اجرائی کے ساتھ ہی سیاسی سرگرمیاں شدت اختیار کرچکی ہیں۔ سیاسی جماعتوں مختلف حربوں سے رائے دہندوں کو رجھانے کیلئے سرگرم ہوگئی ہیں۔ اس صورتحال میں الیکشن کمیشن کی ذمہ داریوں میں اضافہ ہوگیا ہے ۔ گذشتہ کئی مرتبہ سے دیکھا گیا ہے کہ انتخابات سے عین قبل یا پھر انتخابی عمل کے دوران فرقہ وارانہ منافرت کو پھیلانے کی شدت سے کوششیں ہوتی ہیں ۔ر ائے دہندوں کو حقیقی مسائل سے بھٹکانے کیلئے نت نئے ہتھکنڈے اختیار کئے جاتے ہیں اور انہیں مذہب اور ذات پات کے نام پر بانٹ کر ان کے ووٹ بٹور لئے جاتے ہیں۔ اکثر و بیشتر دیکھا گیا ہے کہ سیاسی جماعتیں اور ان کے قائدین ایک دوسرے کے خلاف ایسے ریمارکس اور تبصروں کیلئے شکایات بھی درج کرواتے ہیں لیکن ایسا کرنے والوں کے خلاف کارروائی نہ ہونے کے برابر ہوتی ہے ۔ اس سے فرقہ وارانہ منافرت پھیلانے والوں کے حوصلے بلند ہوجاتے ہیں اور وہ اپنی روش سے باز نہیں آتے بلکہ اس کو ایک حکمت عملی کے طرز پر اختیار کرتے ہوئے انتخابات میں کامیابی حاصل کرنے کی کوششیں کی جاتی ہیں۔ اترپردیش کے گذشتہ اسمبلی انتخابات سے یہ حکمت عملی زیادہ شدت سے اختیار کی جانے لگی ہے ۔ شمشان اور قبرستان کا تذکرہ کیا گیا تھا ۔ ہندو مسلم تہواروں کے حوالے دئے گئے تھے ۔ دہلی میں اسمبلی انتخابات سے قبل فرقہ وارانہ فساد کروایا گیا ۔ گولی مارو سالوں کو جیسے نعرے دئے گئے تھے ۔ ان نعروں کی اعلی ترین سطح تک بھی مدافعت بھی کی گئی تھی ۔ اس طرح کی حکمت عملی کے ذریعہ فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو متاثر کرتے ہوئے ماحول کو پراگندہ کیا جاتا ہے اور ووٹرس کو بھٹکا دیا جاتا ہے ۔ حقیقی مسائل پر ان کی توجہ نہیں ہوپاتی اور وہ جذبات میں بہتے ہوئے اپنے ووٹ کا استعمال کرتے ہیں اور بعد میں حکومتوں کی غلط پالیسیوں اور فیصلوں کی وجہ سے پچھتاتے رہتے ہیں۔
جس طرح انتخابات کے تمام انتظامات کمیشن کی نگرانی میں کئے جاتے ہیں اور آزادانہ و منصفانہ رائے دہی کو یقینی بنایا جاتا ہے ۔ مرکزی نیم فوجی دستوں کو متعین کیا جاتا ہے ۔ عہدیداروں کے تبادلے وغیرہ بھی کمیشن کی منظوری سے کئے جاتے ہیں اسی طرح ضرورت اس بات کی ہے کہ فرقہ وارانہ ماحول کو پراگندہ کرنے اور منافرت پھیلانے والوں کے خلاف بھی فوری طور پر کارروائی کی جائے ۔ مذہب اور ذات پات کی اساس پر ووٹ مانگنے والوں پر امتناع عائد کیا جائے ۔ ذاتی حلیوں اور تقاریر کے ذریعہ عوام کو گمراہ کرنے والوں پر نظر رکھی جائے اور خاص طور پر سوشیل میڈیا پر نظر رکھنے کی ضرورت ہے ۔ ہندو ۔ مسلم منافرت پھیلانے والوں اور ذات پات کی دہائی دینے والوں کو انتخابات میں حصہ لینے سے باز رکھا جانا چاہئے ۔ یہ درست ہے کہ اس پر قومی سطح پر مباحث کی ضرورت ہے اور اتفاق رائے پیدا کیا جانا چاہئے لیکن اب تک اس مسئلہ کبھی خاطر خواہ توجہ نہیں دی گئی ہے ۔ سیاسی جماعتیں اور قائدین اپنی ناکامیوں کو چھپانے کیلئے اور اقتدار ہتھیانے کیلئے فرقہ پرستی کا کارڈ بالواسطہ طور پر کھیلتے ہیں اور کامیاب ہوجاتے ہیں۔ جس طرح سے انتخابات میں پیسے اور طاقت کا استعمال ہوتا ہے اسی طرح سے ہندوستان میں اب مذہب اور ذات پات کی سیاست کو بھی فروغ حاصل ہو رہا ہے ۔ خاص طور پر انتخابات سے عین قبل یا انتخابات کے دوران ایسا ہوتا ہے اور اس کو روکنے کیلئے بھی الیکشن کمیشن کو پہل کرنے کی ضرورت ہے ۔
جب تک حقیقی بنیادی اور عوامی مسائل پر انتخابات کے دوران مباحث نہیں ہونگے اور حکومتوں کے انتخابی وعدوں کو جانچا اور پرکھا نہیں جائیگا اس وقت تک حقیقی نمائندہ حکومت یا نمائندہ کا انتخاب آسان نہیں ہوگا۔ سیاسی قائدین تو عوامی نمائندے کے طور پر منتخب ہوتے رہیں گے اور اسی طرح سے ملک کا ماحول خراب کیا جاتا رہے گا لیکن حقیقت میں عوام کے مسائل کو حل کرنے والی نمائندہ عوامی حکومت کا انتخاب مشکل ہوتا جائیگا ۔ ایسے میں کمیشن کو سبھی سیاسی جماعتوں کو اعتماد میں لیتے ہوئے اس سلسلہ میں پہل کرنے کی اور انتخابی عمل کو فرقہ وارانہ منافرت اور جذباتیت سے پاک کرنے کی ضرورت ہے ۔