اسمبلی انتخابات اور بی جے پی کی مشکلیں

   

اب عوام سمجھتے ہیں اقتدار کا مطلب
اب یہ چل نہیں سکتے آپ کے اشاروں پر
ملک کی پانچ ریاستوں میں اسمبلی انتخابات کیلئے اب آئندہ چند دنوںمیںاعلامیہ جاری ہونے کی امید کی جا رہی ہے ۔ تمام ہی ریاستوں میں انتخابات کیلئے سرگرمیاں تیز ہوگئی ہیں۔ خاص طور پر 2024 کے پارلیمانی انتخابات کو پیش نظر رکھتے ہوئے ان پانچ ریاستوں کے انتخابات کی اہمیت میںاضافہ ہوگیا ہے ۔ بی جے پی کیلئے صورتحال اس بار مشکل نظر آنے لگی ہے ۔ پانچ ریاستوںمیں شائد ہی کوئی ریاست ایسی ہو جہاں بی جے پی اقتدار حاصل ہونے کا پہلے سے یقین رکھ پا رہی ہو۔ حالانکہ راجستھان میں یہ رواج ہے کہ ہر پانچ سال میں وہاں حکومت بدلتی ہے ۔ اس بار وہاں کانگریس کی حکومت ہے تو ایک روایت کے مطابق یہاں بی جے پی کو اقتدار حاصل ہونے کی امید کی جا رہی تھی ۔ تاہم کہا جا رہا ہے کہ اس روایت کو برقرار رکھنا بھی بی جے پی کیلئے آسان نہیںرہ گیا ہے ۔ چند ماہ قبل تک بی جے پی کیلئے راجستھان ایک آسان مقابلہ سمجھا جا رہا تھا تاہم گذشتہ چھ تا آٹھ مہینوں میں جس طرح سے اشوک گہلوٹ حکومت نے وہاں عوام کے موڈ کو بدلنے کیلئے اقدامات کئے ہیں ان کے نتیجہ میں حالات بدل گئے ہیں اورکانگریس ایک بار پھر وہاںاقتدار حاصل کرنے کے قریب پہونچ چکی ہے ۔ کہا جا رہا ہے کہ اس بار راجستھان میں راج ( حکومت ) نہیں بلکہ رواج بدلے گا ۔ اشوک گہلوٹ حکومت کی جانب سے عوام کی سہولت کیلئے کئی اقدامات کا اعلان کیا گیا ہے ۔ گیس سلینڈر کی قیمت میںکمی کردی گئی ہے اور سماج کے تقریبا ہر طبقہ کیلئے مراعات کا اعلان کرتے ہوئے ان کی تائید حاصل کرنے کی کوشش کی گئی ہے ۔ اس کی وجہ سے بی جے پی کیلئے صورتحال مشکل ہوگئی ہے ۔ ایک اور بات یہ بھی ہے کہ بی جے پی راجستھان میں سابق چیف منسٹر وسندھرا راجے سندھیا کو نظر انداز کرنے لگی ہے ۔ بی جے پی میں ایسا لگتا ہے کہ ریاستی قیادت کو پروان چڑھانے کی ضرورت کی نفی کی جا رہی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ تمام پانچ ریاستوں بشمول راجستھان میں صرف وزیر اعظم نریندر مودی کے نام پر ووٹ مانگے جائیں گے ۔ مقامی قیادت کے فقدان سے بی جے پی کیلئے راجستھان بھی تیڑھی کھیر بن گیا ہے ۔
اس کے علاوہ مدھیہ پردیش میں تو صورتحال بالکل کرناٹک جیسی ہوگئی ہے ۔ بی جے پی کے کئی قائدین مسلسل کانگریس کا دامن تھامنے لگے ہیں۔ کئی ارکان اسمبلی بھی ان میں شامل ہیں ۔ وہ قائدین بھی شامل ہیں جو کچھ برس قبل جیوتر آدتیہ سندھیا کے ساتھ کانگریس سے بغاوت کرکے بی جے پی میںشامل ہوگئے تھے ۔ وہ قائدین بھی شامل ہیں جو پہلے سے بی جے پی میںموجود تھے ۔ مدھیہ پردیش میں بھی بی جے پی نے خود موجودہ چیف منسٹر شیوراج سنگھ چوہان کو نظر انداز کردیا ہے ۔ اب تک ان کو اسمبلی ٹکٹ کا تک اعلان نہیں کیا گیا ہے ۔ سات ارکان پارلیمنٹ کو اسمبلی کیلئے میدان میں اتار دیا گیا ہے ان میں تین مرکزی وزراء بھی شامل ہیں۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ بی جے پی کیلئے مدھیہ پردیش میں صورتحال کتنی مختلف ہوگئی ہے ۔ بی جے پی کی اس پریشانی کے باوجود ایسا لگتا ہے کہ مرکزی قیادت ریاستی قائدین کو خاطر میں لانے کو تیار نہیں ہے اور صرف وزیر اعظم مودی کے نام پر ووٹ لینا چاہتی ہے ۔ ایسا لگتا ہے کہ بی جے پی کو صرف دو افراد اور ایک چہرے تک محدود کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے تاہم ریاستی سطح پر یہ تجربہ ہماچل پردیش اور کرناٹک میں بری طرح ناکام رہا ہے اور قیاس کیا جا رہا ہے کہ یہی صورتحال مدھیہ پردیش میں بھی دہرائی جائے گی ۔ کانگریس وہاں بھی عوامی مسائل کو اور کرپشن کو موضوع بحث بنا رہی ہے ۔ بیروزگاری اور مہنگائی پر عوام کی توجہ مبذول کروائی جا رہی ہے ۔ بی جے پی کیلئے اس کا جواب دینا آسان نہیں رہ گیا ہے ۔
چھتیس گڑھ میں کانگریس کی بھوپیش بگھیل حکومت کوعوامی تائید حاصل ہے اوروہاں حکومت کی تبدیلی کیلئے بی جے پی کی کوششیں ناکام ثابت ہورہی ہیں۔ چھتیس گڑھ میں گودی میڈیا کے سروے کے مطابق بھی بی جے پی اقتدار کے قریب دکھائی نہیں دے رہی ہے ۔ اسی طرح تلنگانہ میں بی جے پی کہیں پس منظر میں چلی گئی ہے ۔ اقتدار کی دعویداری کرنے والی بی جے پی ریاستی سطح پر سیاست کی چھٹی انگلی بن کر رہ گئی ہے ۔ یہاں بھی راست مقابلہ کانگریس اور بی آر ایس میں رہ گیا ہے ۔ میزورم میں بھی بی جے پی کیلئے کامیابی آسان نہیںرہ گئی ہے ۔ اس طرح اسمبلی انتخابات ‘ عام انتخابات سے قبل بی جے پی کیلئے مشکل ترین ہوگئے ہیں۔