اسمبلی انتخابات اور مسلمان

   

وہ عالم زندگی کا ہے سکونِ دل نہیں ہوتا
کوئی بھی درد میں اپنے کبھی شامل نہیں ہوتا
اسمبلی انتخابات اور مسلمان
ملک کی پانچ ریاستوں میں انتخابی عمل ہر گذرتے دن کے ساتھ تیز ہوتا جا رہا ہے ۔ مختلف جماعتوں کی جانب سے سماج کے تمام طبقات کو رجھانے اور ان کی تائید حاصل کرنے کی کوششیںبھی تیز ہوگئی ہیں۔ مختلف جماعتیں اور امیدوار اپنی اپنی حکمت عملی کے تحت انتخابی میدان میں اترنے کی تیاریاں کر رہے ہیں۔ جہاں تک بی جے پی کا سوال ہے تو وہ ملک کی پانچ ریاستیں ہوں یا پھر سارے ملک میں انتخابات ہوں مسلمانوںکو خاطر میں لانے تیار نہیں ہے ۔ شائد ہی کسی ریاست میں کسی حلقہ سے کسی امیدوار کو بی جے پی کی جانب سے انتخابات میں مقابلہ کیلئے ٹکٹ دیا جائیگا ۔ بی جے پی بتدریج مسلمانوں کو ٹکٹ سے محروم کرنے کی پالیسی پر عمل پیرا نظر آتی ہے ۔ بی جے پی کو کسی ریاست میں اس حکمت عملی کا فائدہ ہوا تو کسی ریاست میں اسے نقصان کا سامنا بھی کرنا پڑا ہے ۔ تاہم اس سیاسی کھیل میں سب سے اہم بات مسلمانوں کی سیاسی بصیرت ہے ۔ مسلمانوں میں یہ احساس بیدار ہونا چاہئے کہ کون ان کا سیاسی استعمال اور استحصال کر رہا ہے اور ان کو بلی کا بکرا بناتے ہوئے خود اقتدار کے مزے لوٹ رہا ہے ۔ مسلمانوں کے تعلق سے یہ رائے عام ہوتی جا رہی ہے کہ وہ کسی ایک جماعت یا امیدوار کے ساتھ مکمل حمایت وابستہ نہیں کرتے ۔ چاہے راجستھان ہو ‘ مدھیہ پردیش ہو ‘ چھتیس گڑھ ہو یا تلنگانہ ہو یا میزورم ہو مسلمانوںکو ایک حکمت عملی بناتے ہوئے کام کرنے کی ضرورت ہے ۔ مسلمانوں نے ماضی میں اترپردیش جیسی ریاست میںسمجھ بوجھ اور سیاسی بصیرت کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنے ووٹ کا اجتماعی استعمال کیا تھا جس کا نتیجہ یہ نکلا تھا کہ وہاں بی جے پی کو کراری شکست ہوئی تھی اور سماجوادی پارٹی نے کامیابی حاصل کی تھی ۔ بات صرف اترپردیش تک محدود نہیں ہے ۔ جہاں جہاں مسلمانوں نے اجتماعی انداز میں ووٹ کا استعمال کیا وہاں وہاں فرقہ پرست اور موقع پرست طاقتوں کو اور مسلمانوں کا سیاسی استحصال کرنے والوں کو شکست ہاتھ آئی تھی اور مسلمانوں کی سیاست اہمیت میں اضافہ ہوا تھا ۔ اس بار بھی مسلمانوں میں اسی حکمت عملی کی ضرورت محسوس کی جا رہی ہے ۔
ایک بات یہ بھی ذہن نشین رکھنے کی ضرورت ہے کہ پانچ ریاستوں کے اسمبلی انتخابات صرف ان پانچ ریاستوں تک محدود نہیں رہنے والے ہیں ۔ اس کے اثرات آئندہ پارلیمانی انتخابات پر بھی مرتب ہونے والے ہیں۔ مسلمان چاہے جس جماعت کی بھی تائید کا فیصلہ کریں یہ ضرور غور کریں کہ اس جماعت کے تار کہیں بی جے پی سے تو نہیں ملتے ۔ ماضی کا ریکارڈ بھی دیکھا جانا چاہئے ۔ کس جماعت نے کن کن مواقع پر بی جے پی کی راست یا بالواسطہ تائید کی ہے ۔ ایسی جماعتوں کی تائید کرنے کی اپیلیں کرنے والوں سے بھی سوال کیا جانا چاہئے ۔ ان کے اپنے مفادات کو ساری قوم پر مسلط کرنے کا موقع نہیں دیا جانا چاہئے ۔ ایسی حکمت عملی بنائی جانی چاہئے جس کی بنیاد پر مسلمانوں کی سیاسی نمائندگی میں اضافہ ہوسکے اور ان کو سماج میں ان کا واجبی اور جائز مقام مل سکے ۔ مسلمانوں کی سیاسی ‘ سماجی ‘ معاشی اور تعلیمی صورتحال میں بہتری پیدا ہوسکے اور مسلمانوں کو بھی ترقی کے ثمرات میں حصہ داری مل سکے۔ آج سماج کا ہر طبقہ ترقی کے ثمرات میں اپنی حصہ داری سے استفادہ کر رہا ہے اور اپنے حقوق کی جدوجہد بھی کر رہا ہے ۔ مسلمانوں کو بھی اپنی حصہ داری حاصل کرنے کیلئے بصیرت ‘ فراست اور سمجھ بوجھ کے ساتھ ایک جامع حکمت عملی کے ساتھ کام کرنے کی ضرورت ہے ۔ صرف جذباتیت اور روایات کے اسیر بنے رہنے سے ان کی صورتحال میں کوئی تبدیلی نہیں ہوسکتی ۔ کوئی تبدیلی لانی ہے تو اس کیلئے خود کو بھی تیار کرنا ہوگا ۔
مستقبل کو پیش نظر رکھتے ہوئے کام کرنا بہت زیادہ اہمیت کا حامل ہے ۔ یہ بات ضرور پیش نظر رکھنے کی ضرورت ہے کہ کوئی اپنے مفادات یا سیاسی مجبوریوں کیلئے بی جے پی کا ساتھ دینے اور ساتھ لینے کو تیار نہ ہوجائے ۔ جو خطرات ہمیں مستقبل میں درپیش ہوسکتے ہیں ان کیلئے قبل از وقت ہی حکمت عملی بنالیں۔ دستور اور قانون کے دائرہ میں رہتے ہوئے اپنے ووٹ کے ذریعہ اپنی سیاسی سمجھ بوجھ اور فراست کا مظاہرہ کریں اور ایسی طاقتوں کو شکست سے دوچار کریں جو اپنے مفادات اور اپنے مستقبل کی خاطر فرقہ پرستوں کے ہاتھوں کا کھلونا نہ بنیں ۔ اپنی سیاسی بصیرت کے مظاہرہ کا پانچ ریاستوں کے انتخابات ایک بہترین موقع ہیں۔