اسمبلی انتخابات اور کانگریس پارٹی

   

ہے دل کے لئے موت مشینوں کی حکومت
احساس مروت کو کچل دیتے ہیں آلات
اسمبلی انتخابات اور کانگریس پارٹی
ملک کی دو ریاستوں مہاراشٹرا اور ہریانہ میں اسمبلی انتخابات کا عمل شروع ہوچکا ہے ۔ اعلامیہ جاری کردیا گیا ہے اور امیدواروں کے انتخاب کیلئے سیاسی جماعتیں سرگرم ہوچکی ہیں۔ سیاسی جماعتوں کے مابین اتحاد اور مفاہمت کیلئے بھی مذاکرات شدت کے ساتھ جاری ہیں۔ مہاراشٹرا میں شیوسینا اور بی جے پی میں مفاہمت کو تقریبا قطعیت دیدی گئی ہے اور دونوں جماعتوں کے امیدواروں کا اب کسی بھی وقت اعلان ہوسکتا ہے ۔ ہریانہ میں بھی بی جے پی نے اپنی تیاریاں تیز کردی ہیں۔ وہاں بھی امیدواروں کے ناموں پر غور شروع ہوچکا ہے ۔ وہاں بی جے پی کو کسی سے اتحاد کی ضرورت نہیں ہے تاہم دونوں ریاستوں مںے بی ے پی عوام سے رابطوں کو بحال کرنے کی مہم میں مصروف ہوگئی ہے ۔ بالکل نچلی سطح سے وہاں پارٹی کو سرگرم کردیا گیا ہے اورا س کا کیڈر آر ایس ایس کی مدد سے رائے دہندوں کو راغب کرنے کی سرگرمیاں بھی شروع کرچکا ہے ۔ مہاراشٹرا میں این سی پی بھی ایسا لگتا ہے کہ سرگرم ہوگئی ہے ۔ خاص طور پر این سی پی سربراہ شرد پوار کے خلاف ای ڈی کی جانب سے مقدمہ کے اندراج کے بعد پارٹی کی سرگرمیاں بڑھ گئی ہیں اور جس انداز سے ای ڈی کے مقدمہ پر شرد پوار کا رد عمل تھا اس سے پارٹی میںنئی جان بھی پیدا ہوتی نظر آ رہی ہے ۔ ان تمام حالات اور سرگرمیوں میں تاہم کانگریس پارٹی کہیں بھی سرگرم یا مصروف نظر نہیں آتی ۔ مہاراشٹرا اور ہریانہ دونوں ہی ریاستوں میں پارٹی کو کیڈر کی تائید حاصل ہے وہاں اس کا تنظیمی ڈھانچہ بھی موجود ہے لیکن ایسا لگتا ہے کہ کانگریس پارٹی کی سرگرمیاں ابھی تک انتخابات کے تعلق سے شروع نہیں ہوسکی ہیں ۔ انتخابی سرگرمیوں کے آغاز میں پارٹی کی جانب سے جتنی تاخیر ہوگی اتنی ہی اسے انتخابی مہم کے دوران مشکلات کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے ۔ انتخابی عمل کے باضابطہ آغاز سے قبل ہی اسے کئی قائدین کے انحراف کی وجہ سے پریشانی ہوئی ہے ۔ ایسا لگتا ہے کہ پارٹی خود قومی سطح پر جوش و جذبہ سے عاری ہوگئی ہے یا پھر وہ حالات کو اب تک بھی سمجھنے کی کوشش کر رہی ہے۔ دونوں ہی صورتوں میں انتخابات میں پارٹی کے امکانات متاثر ہوسکتے ہیں ۔
پارٹی کے امکانات پہلے ہی سے متاثر نظر آتے ہیں اور اندرونی حلقوں میں بھی یہ تاثر عام ہے کہ پارٹی کو ان انتخابات میں بھی عوام کی تائید ملنی مشکل ہی ہے ۔ تاہم یہ سیاسی عمل کا حصہ ہے ۔ انتخابی سیاست میں کبھی شکست اور کبھی کامیابی لازم و ملزوم ہیں لیکن جس طرح سے کانگریس پارٹی کے حوصلے پست ہوتے نظر آ رہے ہیں وہ پارٹی کیلئے اچھی علامت نہیں کہے جاسکتے ۔ جس طرح سے پارٹی نے لوک سبھا انتخابات میں مقابلہ کیا تھا اس سے ایک پیام عوام کو مل رہا تھا کہ پارٹی حکومت کے خلاف پوری شدت کے ساتھ نبرد آزما ہے ۔ کامیابی ہی انتخابی سیاست کا لازمی عنصر نہیں ہوتی ۔ یہ بات کانگریس اور اس کی قیادت کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ مسلسل جدوجہد ہی اس کے پاس واحد راستہ ہے جس کے ذریعہ وہ کھویا ہوا وقار بحال کرسکتی ہے ۔ اسے فی الحال نتائج پر توجہ دئے بغیر عوام کے درمیان پہونچنے اور پوری شدت کے ساتھ حکومت کی ناکامیوں کو اجاگر کرنے اور عوام کو حکومت کے خلاف رائے عامہ ہموار کرنے کا ایک پلیٹ فارم فراہم کرنے کی ضرورت ہے ۔ جس طرح سونیا گاندھی نے گذشتہ دونوںکہا تھا کہ حکومت کے خلاف احتجاج ٹوئیٹر یا سوشیل میڈیا پر نہیں بلکہ سڑکوں پر اترکر کیا جانا چاہئے ۔ اس تاکید کو عملی شکل دینے کی ضرورت ہے اور اس کے بغیر پارٹی کے سیاسی یا پھر انتخابی امکانات میں بہتری کی امید بالکل نہیں کی جا سکتی ۔
سونیا گاندھی کو پارٹی کی عبوری صدر بناتو دیا گیا ہے لیکن ایسا لگتا ہے کہ وہ ابھی تک حالات کو سمجھنے ہی کوشش کر رہی ہیں۔ سونیا گاندھی ایک تجربہ کار سیاستدان ہیں اور طویل عرصہ تک پارٹی کی صدر بھی رہ چکی ہیں۔ انہیں اپنے تجربہ کو بروئے کار لاتے ہوئے پارٹی کے قائدین اور کیڈر کو اعتماد میں لینا ہوگا ۔ خود ان کا اعتماد بحال کرنا ہوگا ۔ انہیں پورے جذبہ کے ساتھ عوام کے درمیان بھیجنا ہوگا ۔ کیڈر اور قائدین کی صلاحیتوں میں اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے انہیں ذمہ داریاں تفویض کرنے پر توجہ کرنا ہوگا تبھی وہ پراعتماد انداز میں عوام سے رجوع ہوسکتے ہیں۔ جب تک عوام سے راست رابطے نہ ہوں اس وقت تک عوام کی تائید حاصل کرنی مشکل ہوگی ۔ پارٹی کو سرگرم ہونے کیلئے وقت شائد کم ہوتا جا رہا ہے