نفرت کے تماشہ میں کوئی نہ تماشائی ہے
دم بخود سب ہیں عجب انجمن آرائی ہے
ملک کی چند ریاستوں میں اسمبلی انتخابات ہونے والے ہیں۔ ان ریاستوں میں بی جے پی یا پھر این ڈی اے ( بی جے پی زیر قیادت اتحاد ) برسر اقتدار ہے ۔ اس کے علاوہ بی جے پی کو سب سے بڑا سیاسی جھٹکہ دینے والی ریاست اترپردیش میں 10 اسمبلی حلقوں کے ضمنی انتخاب بھی ہونے والے ہیں۔ ان تمام ریاستوں اور حلقوں کی سیاسی طور پر بہت زیادہ اہمیت ہے ۔ ان میں مہاراشٹرا شامل ہے جہاں اسمبلی انتخابات ہونے والے ہیں۔ ہریانہ میں بھی چناؤ ہونے والے ہیں۔ ان دونوں ہی ریاستوں میںبھی بی جے پی کا لوک سبھا انتخابات میںمظاہرہ انتہائی ناقص رہا ہے ۔ مہاراشٹرا میں ابھی سے بی جے پی کے حلقوں میں بے چینی پیدا ہوگئی ہے اور اجیت پوار کے ساتھ این سی پی ( شرد پوار ) سے انحراف کرنے والے کئی قائدین اب دھیرے دھیرے گھر واپسی کرنے لگے ہیں۔ اسی طرح ہریانہ میں صورتحال کو دیکھتے ہوئے چیف منسٹر کو بھی قبل از وقت تبدیل کیا گیا تھا ۔ نئے چیف منسٹر کو ذمہ داری سونپی گئی ۔ حلیف پارٹی کا ہاتھ چھوڑ دیا گیا اور تنہا حکومت بنالی گئی ۔ اس سب کے باوجود ہریانہ میں بھی بی جے پی کو لوک سبھا نشستوں کا نقصان برداشت کرنا پڑا تھا ۔ لوک سبھا انتخابات میں بھی بی جے پی امیدواروں نے محض فرقہ پرستی کا سہارال یتے ہوئے مقابلہ کیا تھا ۔ عوامی مسائل پر شاذ و نادر ہی کوئی بات کی گئی تھی اور ہندو ۔ مسلم کرنے سے کوئی گریز نہیں کیا گیا تھا ۔ مسلمانوںکو در انداز کہا گیا ۔ انہیں رسواء و بدنام کرنے میں کوئی کسر باقی نہیں ر کھی گئی ۔ انہیں زیادہ بچے پیدا کرنے والے کہا گیا ۔ کئی حربے اختیار کرتے ہوئے عوام کے ذہنوں کو پراگندہ کیا گیا تھا ۔ یہ سب کچھ مقامی سطح پر تو ہوا ہی لیکن اعلی ترین سطح پر بھی یہی کچھ ہوا تھا ۔ ملک کی تقریبا ہر ریاست میں یہی حکمت عملی اختیار کرتے ہوئے ماحول کو خراب کیا گیا ۔ اس سب کے باوجود لوک سبھا انتخابات کے نتائج وہ نہیںرہے جو بی جے پی چاہتی تھی یا جیسی بی جے پی کو توقع تھی ۔ کئی ریاستوں میں حیرت انگیز طور پر پارٹی کو نقصان ہوا جن میں مہاراشٹرا و اترپردیش جیسی بڑی اور اہمیت کی حامل ریاستیں بھی شامل تھیں ۔
ابھی لوک سبھا انتخابی نتائج کے اثرات کم نہیں ہوئے ہیں اور اسمبلی انتخابات کیلئے وقت قریب آتا جا رہا ہے ۔ بی جے پی نے سیاسی نقصان کو پیش نظر رکھتے ہوئے ان ریاستوں کے تعلق سے ابھی سے حکمت عملی تیار کرنی شروع کردی ہے ۔ سیاسی سرگرمیوں کا آغاز کردیا گیا ہے ۔ پارٹی قائدین کے علاوہ حلیف جماعتوں کے ساتھ مشاورت بھی کی جا رہی ہے ۔ کچھ اہم فیصلے بھی کئے جا رہے ہیں اور عوامی رابطے بحال کرنے کا عمل بھی شروع کردیا گیا ہے ۔ اب سیاسی حریفوں کو تنقیدوں کا نشانہ بنانے کا سلسلہ شروع ہوگیا ہے اور اس میں جو لب و لہجہ اور جو الفاظ استعمال کئے جا رہے ہیں وہ قطعی عوامی فلاح و بہبود سے تعلق نہیں رکھتا ۔ سیاسی مخالفین کو اب بھی فرقہ وارانہ طنز کے ساتھ نشانہ بنایا جارہا ہے ۔ پالیسیوں اور کارکردگی کو بالائے طاق رکھ دیا گیا ہے ۔ عوام کیلئے کیا کچھ کیا گیا ہے اس کا کوئی تذکرہ نہیں کیا جا رہا ہے ۔ حکومت کی کارکردگی کو عوام میں پیش کرنے سے گریز کیا جا رہا ہے ۔ آئندہ کیلئے کیا منصوبے بنائے جا رہے ہیں یا پھر اگر آئندہ معیاد کیلئے اقتدار حاصل ہوتا ہے تو ریاست کو کس رفتار سے ترقی دی جائے گی اس کا بھی کوئی اظہار نہیں ہو رہا ہے ۔ اگر زبان کھولی جا رہی ہے تو محض فرقہ پرستانہ سوچ کو ہوا دینے اور فروغ دینے کیلئے استعمال ہو رہی ہے ۔ اس طرح کے حوالے دئے جا رہے ہیں جن کے ذریعہ سماج میں نفرت اور عداوت کو ہی فروغ حاصل ہوگا ۔ اس سب کا واحد مقصد اسمبلی انتخابات میںسیاسی فائدہ حاصل کرنا ہی رہ گیا ہے ۔
انتخابات میں مقابلہ کرنا ہر سیاسی پارٹی کا کام ہوتا ہے ۔ ہر جماعت اپنے منصوبوں کے مطابق انتخابی میدان میں اترتی ہے ۔ عوام کو اپنے عزائم سے آگاہ کرواتی ہے ۔ اپنے منصوبے ان کے درمیان رکھتی ہے اور سیاسی مخالفین کی خامیوں سے بھی عوام کو واقف کروایا جاتا ہے ۔ اس کے بعد عوام سے ووٹ مانگے جاتے ہیںلیکن حالیہ عرصہ میں اس نہج کو یکسر تبدیل کردیا گیا ہے ۔ محض فرقہ پرستانہ سوچ کے ساتھ کام کرتے ہوئے عوام کے ذہنوں کو بھی پراگندہ کردیا گیا ہے اور مذہبی خطوط پر سماج کو تقسیم کرتے ہوئے سیاسی فائدہ حاصل کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے اور اس سے ایسا کرنے والے سبھی عناصر کو گریز کرنا چاہئے ۔