اسٹیڈیم کا نام

   

اس قوم کی تہذیب کا معلوم ہے انجام
جس قوم کی تہذیب ہو بس نام فقط نام
اسٹیڈیم کا نام
ہندوستان میں سیاسی طاقت جس کے پاس ہوتی ہے وہ کچھ بھی کرسکتا ہے ۔ کل تک کانگریس کے پاس سیاسی طاقت ہوا کرتی تھی اور برسوں اس نے ملک پر راج کیا ۔ ہر جگہ اپنے قائدین کے ناموں سے پراجکٹس تیار کئے ۔ موجودہ سیاسی حکمران پارٹی بی جے پی جب تک اپوزیشن میں تھی کانگریس پر تنقید کرتی رہی کہ اس نے ملک کو اپنے قائدین کے ناموں سے بھر دیا ہے ۔ گاندھی خاندان میں اندرا گاندھی سے لے کر دیگر گاندھیوں کے نام سے کئی پراجکٹس بنائے گئے ۔ اب جب کہ مرکز اور کئی ریاستوں میں بی جے پی کی حکومت ہے تو وہ بھی کانگریس کے نقش قدم پر چل پڑی ہے ۔ پراجکٹس ، سرکاری عمارتوں اور دیگر تنصیبات کے نام اپنے قائدین سے موسوم کررہی ہے ۔ یہ ایک ایسی سیاسی طاقت جس نے ملک کی تمام روایات کو ملیا میٹ کرنا شروع کردیا ہے ۔ دنیا بھر میں کئی حکومتوں نے بڑے بڑے پراجکٹ انجام دئیے ہیں لیکن وہاں کسی بھی پارٹی کے لیڈروں سے پر اہم کام موسوم نہیں کئے جاتے ۔ شمالی کوریا میں دنیا کا سب سے بڑا اسٹیڈیم تعمیر کیا گیا ۔ ہانگ کانگ میں تعمیر کردہ اسٹیڈیم کا نام شمالی کوریا کے کسی لیڈر سے موسوم نہیں کیا گیا اور نہ ہی اس اسٹیڈیم کو کم جانگ اُن کا نام دیا گیا جو شمالی کوریا کے عوام کے سپریم نمائندہ ہیں ۔ لیکن یہ ہندوستانی عوام کی ہی بدبختی ہے کہ ان کا سپریم نمائندہ اپنی من مانی کو اپنا حق سمجھتا ہے ۔ گجرات کے سب سے بڑے اسٹیڈیم موٹیرا کا نام نریندر مودی رکھا گیا ۔ سردار ولبھ بھائی پٹیل کا نام پس منظر میں چلا گیا ۔ اسپورٹس کے لیے بنائی گئی عمارتوں پر نام کس کا ہونا چاہئے یہ ایک اہم بحث ہے ۔ نریندر مودی کے نام کو ان دنوں ان کے حامیوں نے بڑی سیاسی طاقت سمجھا ہے ۔ سردار پٹیل سے بھی زیادہ اہمیت ہوجائے تو پھر اس ملک کی دیرینہ روایات کا دھیرے دھیرے خاتمہ کرنا ہے ۔ نپولین خود کو فرانس کا طاقتور ترین بادشاہ سمجھتا تھا لیکن اس نے کیا کام انجام دئیے ہیں اس سے تاریخ داں واقف ہیں ۔ ہندوستان کے وزیراعظم نریندر مودی کے نام سے اسٹیڈیم موسوم کردینا بزرگ سیاست دانوں کی توہین ہے ۔ نریندر مودی نے خود اپنے نام سے اسٹیڈیم موسوم کیا اور اس کام میں صدر جمہوریہ رام ناتھ کووند نے مدد کی ہے تو یہ ایک آئینی المیہ ہے ۔ اسٹیڈیم کا از سر نو نام تشکیل دینا کئی سوال پیدا کرتا ہے ۔ ایک ایسے وقت جب اس اسٹیڈیم میں کرکٹ ٹسٹ میاچ ہونے جارہا ہے ۔ جہاں 50,000 سے زیادہ شائقین کرکٹ کا ہجوم ہوگا ۔ اگر کوئی حکمراں پارٹی اپنی من مانی کرتے ہوئے پہلے سے ہی کسی قومی لیڈر سے موسوم اسٹیڈیم کو موجودہ وزیراعظم مودی سے موسوم کردیا جاتا ہے یہ ایک افسوسناک قدم ہے ۔ گجرات کی امیت شاہ فیملی نے اپنے اختیارات سے بڑھ کر کام کردئیے ہیں تو ان کاموں کا کم از کم دستوری عہدہ کی حامل جلیل القدر شخصیت صدر جمہوریہ کو حصہ نہیں بننا چاہئے تھا ۔ نریندر مودی اسٹیڈیم کے نام پر کئی تنقیدیں ہورہی ہیں ۔ اس نام کی حمایت ہندوستان کے دو بڑے بزنس گھرانوں نے بھی کی ہے ۔ تنقید کرنے والوں نے یہ فراموش کردیا ہے کہ کسی بھی عمارت کا نام رکھنا ایک علامتی عمل ہوتا ہے ۔ ہندوستانی عوام کو یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ ملک کی کوئی بھی سرکاری عمارت ایک قومی اثاثہ ہوتی ہے ۔ سیاسی چہرہ تو صرف ایک وقتی نمائندہ ہوتا ہے ۔ گجرات کا اسٹیڈیم بھی ہندوستان کی سیاسی اور معاشی طاقت کی نمائندگی کرتا ہے لیکن اس کا نام مودی سے موسوم کردیا جانا ایک طویل بحث کو چھیڑتا ہے ۔ کل تک یہی بی جے پی کانگریس کو تنقید کا نشانہ بناتی رہی ہے کہ اس نے خاندانی راج قائم کیا ہے جب کہ ان پر بقول کانگریس لیڈر راہول گاندھی نے مودی حکومت پر چار لوگوں کی حکومت ہم دو ہمارے دو سے تنقید کی تھی ۔ بہر حال ہندوستان کی سرکاری عمارتوں کو پارٹی کے سیاسی چہروں کے نام سے موسوم کرنا ایک غلط چلن ہے ۔ وزیراعظم نریندر مودی کو بھی یہ اعتراض کرنا چاہئے کہ ان سے موسوم اسٹیڈیم کو فوری ہٹادیا جائے ۔ موٹیرا کے نام سے موسوم اسٹیڈیم کو ہی برقرار رکھا جائے ۔ انہوں نے 2014 میں وزیراعظم کی حیثیت سے حلف لینے کے بعد لوک سبھا میں کہا تھا کہ ان کا مقصد 1200 سال سے جاری غلامی کو بدلنا ہے ۔ لیکن اب خود مودی اس غلامی کی زنجیر میں اپنے نام کی ایک کڑی لگا دی ہے ۔۔