اسی زمین پہ ظالم تھے تم سے پہلے جو

,

   

مودی کا ’’ ون میان شو ‘‘ …رام مندر سے الیکشن تک
پارلیمنٹ سیشن کے فوری بعد چناؤ بگل

رشید الدین
’’ون میان شو ‘‘ اس لفظ کا یوں تو استعمال اکثر ہوتا ہے لیکن لفظ کی ایجاد کے بعد سے شاید پہلی مرتبہ کسی شخصیت پر اس کا مکمل اطلاق ہوا ہو، وہ کوئی اور نہیں وزیر اعظم نریندر مودی ہیں۔ یہ کہنا بھی شاید غلط نہ ہو کہ یہ لفظ وجود میں آیا صرف مودی کیلئے۔ ایک بزرگ سیاستداں جنہوں نے قومی سطح کی سیاست کو گذشتہ 40 برسوں میں قریب سے دیکھا ہے ان کا کہنا ہے کہ ’’ ون میان شو‘‘ لفظ کی ایجاد کے بعد سے پہلی مرتبہ وہ کسی پر فٹ ہوتا دیکھ رہے ہیں تو وہ نریندر مودی ہیں۔ بہر حال خوش قسمت مودی ہیں یا پھر وہ لفظ کہ جسے کوئی حقیقی معنوں میں شخصیت مل گئی۔ سیاست کا میدان ہو یا پھر کوئی شعبہ حیات جہاں کہیں کسی ایک کی من مانی چلنے لگی اور دوسروں کو بے اثر کردیا جائے تو اسے ’’ ون میان شو‘‘ کہا جاتا ہے لیکن یہاں تو سارے ملک پر مودی کا راج ’ ون میان شو‘ کی حقیقی ترجمانی ہے۔ وزیر اعظم کی حیثیت سے ملک پر کنٹرول فطری ہے لیکن یہاں تو نہ صرف حکومت بلکہ پارٹی حتیٰ کہ دستوری و جمہوری اداروں کا ریموٹ کنٹرول نریندر مودی کے ہاتھ میں ہے۔ کوئی سرکاری تقریب ہو یا پھر سیاسی ایونٹ حتیٰ کہ مذہبی اور سماجی پروگرامس میں بھی صرف مودی ہی دکھائی دیتے ہیں اور انہوں نے جیسے ملک کو یرغمال بنا رکھا ہے۔ حکومت اور برسراقتدار پارٹی بی جے پی پر وزیر اعظم کا کنٹرول سمجھ میں آتا ہے لیکن یہاں تو پرنٹ اینڈ الیکٹرانک میڈیا، سوشیل میڈیا، مقننہ، عاملہ حتیٰ کہ عدلیہ بھی مودی کی مرضی کے تابع دکھائی دے رہے ہیں۔ سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ صدر جمہوریہ اور نائب صدر جیسے عہدے شاید ہی کبھی اس قدر غیر اہم بنادیئے گئے جو کہ آج بن چکے ہیں۔ مرکزی کابینہ کا کوئی وزیر حتیٰ کہ جوڑی دار امیت شاہ پس منظر میں جاچکے ہیں۔ بی جے پی کے قومی صدر جے پی نڈا تو تلاش گمشدہ کی طرح ہیں اور وہ اپنے سے کوئی فیصلہ کرنا تو دور کی بات ہے اظہار خیال تک نہیں کرپاتے۔ جب، جہاں، جس کی ضرورت ہو اس کا استعمال کرنا اور چھوڑ دینے کے فن میں مودی ماہر بن چکے ہیں۔ ملک کا کوئی بڑا ایونٹ کیوں نہ ہو اس کی پلاننگ کے ڈائرکٹر خود نریندر مودی ہوتے ہیں اور کیمرہ مینوں اور فوٹو گرافرس کو باقاعدہ ٹریننگ دی جاتی ہے کہ کتنے فاصلہ سے ویڈیو گرافی اور فوٹو گرافی کی جائے اور مودی کے علاوہ کسی پر فوکس نہ رہے۔ سیکوریٹی گارڈز کو بھی قریب سے چلنے کی اجازت نہیں ہوتی۔ نئی پارلیمنٹ کے افتتاح کے موقع پر یہی کچھ ہوا، اور اسپیکر لوک سبھا اوم برلا پس منظر میں دیکھے گئے۔ ایودھیا میں رام مندر کا افتتاح نریندر مودی کے ’ ون میان شو‘ کا عروج تھا۔ لوک سبھا چناؤ سے عین قبل مودی نے اس شو میں اداکاری کے جو جوہر دکھائے ہیں اس کے آگے دلیپ کمار اور امیتابھ بچن بھی بونے دکھائی دیں گے۔ نریندر مودی نے10 دن تک دنیا داری ترک کرتے ہوئے ایک پجاری اور بھکت کا روپ دھارن کرلیا اور مندر کے افتتاح کے دن ایسا محسوس ہورہا تھا جیسے مودی مندر کے ہیڈ پجاری ہیں۔ سارے ایونٹ کے دوران دنیا بھر کے ٹی وی چینلس پر صرف مودی کا جلوہ تھا۔ رام مندر کی تحریک چلانے والے ایل کے اڈوانی اور مرلی منوہر جوشی گھروں میں بیٹھ کر خون کے آنسو رو روہے تھے کیونکہ ان کے شاگرد نے مندر کی تعمیر کا سہرا اپنے سر باندھ رکھا تھا۔ نامکمل مندر کے افتتاح کو گناہ قرار دینے والے شنکر آچاریوں کی آواز مودی کے سامنے دب گئی۔ لوک سبھا چناؤ میں ہیٹ ٹرک کیلئے مودی نے مذہبی لبادہ اوڑھ لیا اور ہندوستان میں ہندوؤں اور ہندوتوا کے مسیحا کے طور پر خود کو منوانے میں کامیاب ہوگئے۔ ملک کے چپہ چپہ اور گلی کوچوں تک تقریب کو پہنچاتے ہوئے ہندو سماج کو جوڑنے کی کوشش کی گئی۔ مودی میجک کے نتیجہ میں اکثریتی طبقہ میں یہ تاثر پیدا کیا گیا کہ ملک ہمارا ہے اور مسلمان دوسرے درجہ کے شہری ہیں۔ ہم جو عبادت گاہ چاہیں گے حاصل کرسکتے ہیں۔ ملک میں دیگر اقوام کو محکوم بن کر جینا ہوگا۔ ویسے بھی سیاسی زندگی میں ’ ون میان شو‘ کرنے والے نریندر مودی اپنی نجی زندگی میں بھی تنہا ہی ہیں اور اپنی شریک حیات کو دردر کی ٹھوکریں کھانے پر مجبور کردیا ہے۔ ازدواجی زندگی کے ’ ون میان‘ کا ملک میں ’ ون میان شو‘ آخر کب تک چلے گا؟۔
پارلیمنٹ کا بجٹ سیشن 31 جنوری سے شروع ہوگا جو 9 فروری کو اختتام کو پہنچے گا۔ صدر جمہوریہ کے دونوں ایوانوں سے خطاب کے دوسرے دن بجٹ پیش کیا جائے گا۔ پارلیمنٹ کا یہ سیشن مودی حکومت کی دوسری میعاد کا آخری سیشن ثابت ہوگا کیونکہ اپریل میں لوک سبھا انتخابات متوقع ہیں۔ نریندر مودی حکومت نے ملک بھر میں جس انداز میں اپنی انتخابی مہم چلائی ہے اس اعتبار سے پارلیمنٹ سیشن کے فوری بعد الیکشن شیڈول کی اجرائی کا امکان ہے۔ پارلیمنٹ کے آخری سیشن میں ایک طرف بی جے پی تو دوسری طرف اپوزیشن اتحاد اپنی برتری ثابت کرنے کی کوشش کرسکتے ہیں۔ گذشتہ سیشن میں حکومت سے سوال کرنے پر 140 سے زائد اپوزیشن ارکان کو دونوں ایوانوں سے معطل کیا گیا تھا۔ دوسری میعاد کا آخری سیشن ہنگامہ خیز ثابت ہوسکتا ہے اور نریندر مودی ایوان کے ذریعہ ملک کے عوام کو خطاب کرنے کی کوشش کریں گے۔ یوں تو بی جے پی نے ملک میں انتخابی مہم چھیڑ دی ہے اور رام مندر کے نام پر ہندو سماج کو متحد کرنے کی منصوبہ بندی کی جاچکی ہے۔ مندر کے افتتاح کے موقع پر ملک کے مختلف حصوں میں فرقہ وارانہ کشیدگی پیدا کرنے کی کوشش کی گئی تاکہ مسلمانوں میں خوف کا ماحول پیدا ہواور ہندو راشٹر کے قیام کے معاملہ میں کوئی رکاوٹ محسوس نہ ہو۔ مہاراشٹرا میں مسلمانوں کی جائیدادوں پر بلڈوزرچلایا گیا جو اس بات کا اشارہ دیتا ہے کہ آنے والے دنوں میں بی جے پی زیر اقتدار ریاستوں میں مسلمانوں کے ساتھ کیا سلوک رہے گا۔ سنگھ پریوار اور آر ایس ایس نے گاؤں گاؤں کی سطح پر نفرت کے ماحول کے ذریعہ بی جے پی کو سیاسی فائدہ پہنچانے کی تیاری کرلی ہے۔ دوسری طرف کانگریس زیر قیادت اپوزیشن اتحاد انڈیا میں اتحاد سے قبل ہی انتشار کی علامتیں تشویش کا باعث ہیں۔28 سیاسی پارٹیوں نے انڈیا الائنس کے قیام کا فیصلہ کیا تھا لیکن لوک سبھا چناؤ میں نشستوں کی تقسیم کے مسئلہ پر اختلافات پیدا ہوچکے ہیں۔ ممتا بنرجی نے تنہا مقابلہ کا اعلان کیا ہے جبکہ بہار کے چیف منسٹر نتیش کمار کے تیور بھی باغیانہ دکھائی دے رہے ہیں۔ کانگریس لیڈر راہول گاندھی دوسرے مرحلہ کی بھارت جوڑو نیائے یاترا کے ذریعہ منی پور کے بعد آسام میں داخل ہوئے تو انہیں بی جے پی حکومت کی جانب سے جگہ جگہ رکاوٹوںکا سامنا کرنا پڑا۔ آسام جہاں بی جے پی نے جارحانہ فرقہ پرستی کی بنیادوں کو مضبوط کردیا ہے وہاں راہول گاندھی یاترا پر حملے کے ذریعہ یہ تاثر دینے کی کوشش کی گئی کہ آسام پر بی جے پی کا کنٹرول ہے۔ مغربی بنگال میں داخلے کے بعد راہول گاندھی کا حقیقی امتحان رہے گا جہاں ممتا بنرجی نے پہلے ہی تنہا مقابلہ کا اعلان کردیا ہے۔ اپوزیشن اگر اسی طرح منتشر رہی تو ملک میں بی جے پی کو اقتدار سے روکنا ممکن نہیں ہوگا۔ سیکولرازم کا دعویٰ کرنے والی پارٹیوں کا یہ امتحان ہے کہ وہ ملک میں جمہوریت اور دستور کے تحفظ میں کس حد تک سنجیدہ ہیں۔ کانگریس پارٹی کو یقین ہے کہ لوک سبھا چناؤ تک سب کچھ ٹھیک ہوجائے گا لیکن سیاسی مبصرین کی مانیں تو انڈیا الائنس میں شامل پارٹیوں کا متحد ہونا آسان نہیں ہے۔ ہندوستان میں فی الوقت دستور اور جمہوریت کو خطرہ لاحق ہوچکا ہے۔ موجودہ صورتحال میں ہندو راشٹر کی تشکیل بی جے پی کیلئے آسان دکھائی دے رہی ہے۔ دستوری اور جمہوری اداروں کا جس طرح مودی حکومت نے استعمال کیا ہے اس سے انصاف پسند طاقتوں کے حوصلے پست ہوچکے ہیں۔ موجودہ حالات میں مسلمانوں کیلئے صبرآزما صورتحال ہے۔ قوم کی بدقسمتی کہیئے کہ سیاسی اور مذہبی سطح پر مسلمانوں کی رہنمائی کیلئے کوئی مضبوط قیادت نہیں ہے۔ سابق میں جو بھی قیادتیں رہیں وہ دیانتدار اور حق گو ثابت ہوئی تھیں لیکن ان کے جانشینوں نے مصلحت پسندی کو اپنا شعار بنالیا جس کے نتیجہ میں قیادتوں پر عام مسلمانوں کا اعتماد متزلزل ہوچکا ہے۔ آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ جو مسلمانوں کے واحد نمائندہ پلیٹ فارم کی طرح ہے اسے بھی بعض عناصر نے کمزور کرنے اور حقیقی مقصد سے ہٹانے کی کوشش کی ہے۔ موجودہ حالات میں بہادر یار جنگ کا یہ جملہ ہمیں یاد آرہا ہے جس میں انہوں نے کہا تھا کہ مسلمان ہمیشہ خود میں احساس کو زندہ رکھیں، اگر احساس ختم ہوجائے گا تو ہندوستان میں اسپین جیسے حالات پیدا ہوسکتے ہیں۔ مسلمانوں کو عبادت سے روکنے کیلئے مساجد پر دعویداری پیش کی جارہی ہے اور بابری مسجد کے بعد متھرا اور کاشی کی مساجد اور عیدگاہ پر نظریں ہیں۔ مسلمانوں کو کسی قیادت کا انتظار کئے بغیر خود کو حالات سے نمٹنے کیلئے تیار کرنا ہوگا۔ ممتاز شاعر ندیم شاد نے کیا خوب کہا ہے : ؎
اسی زمین پہ ظالم تھے تم سے پہلے جو
اسی زمین کے اندر کہیں پڑے ہوں گے