مرشد کی يہ تعلیم تھی اے مسلم شوريدہ سر
لازم ہے رہرو کے لئے دنيا میں سامانِ سفر
حکیم الامت علامہ ڈاکٹر محمد اقبال نے ۱۹۱۱ء میں علیگڑھ یونیورسٹی میں انگریزی زبان میں ایک فکر انگیز لکچر دیا تھا جس کا ترجمہ مولانا ظفر علیخان مرحوم نے اردو میں ’’ملت بیضا پر ایک عمرانی نظر‘‘ کے نام سے کیا جس کا ایک چشم کشا اقتباس درج ذیل ہے :
’’مسلمان کو بیشک علوم جدیدہ کی تیزپا ر فتار کے قدم بقدم چلنا چاہئے لیکن یہ بھی ضرور ہے کہ اس کی تہذیب کا رنگ خالص اسلامی ہو۔ اور یہ اسوقت تک نہیں ہو سکتا جب تک کہ ایک ایسی یونیورسٹی موجود نہ ہو جسے ہم اپنی قومی تعلیم کا مرکز قرار دے سکیں ۔ ہم کو یہ سمجھ لینا چاہیئے کہ اگر ہماری قوم کے نو جوانوں کی تعلیمی اُٹھان اسلامی نہیں ہے تو ہم اپنی قومیت کے پودے کو اسلام کے آبِ حیات سے نہیں سینچ رہے ہیں اور اپنی جماعت میں پکے مسلمانوں کا اضافہ نہیں کر رہے ہیں بلکہ ایک ایسا نیا گروہ پیدا کر رہے ہیں جو بوجہہ کسی اکتنازی یا اتحادی مرکز کے نہ ہونے کے اپنی شخصیت کو کسی دن کھو بیٹھے گا اور گردو پیش کی ان قوموں میں سے کسی ایک قوم میں ضم ہو جائیگا جسمیں اسکی بہ نسبت زیادہ قوت وجان ہوگی ۔ لیکن ہندوستان میں اسلامی یونیورسٹی کا قائم ہونا ایک اور لحاظ سے بھی نہایت ضروری ہے ۔ کون نہیں جانتا کہ ہماری قوم کے عوام کی اخلاقی تربیت کا کام ایسے علماء اور واعظ انجام دے رہے ہیں جو اس خدمت کی انجام دہی کے پوری طرح سے اہل نہیں ہیں اسلئے کہ ان کا مبلغ علم اسلامی تاریخ اور اسلامی علوم کے متعلق نہایت ہی محدود ہے ۔ اخلاق اور مذہب کے اصول و فروع کی تلقین کے لئے موجودہ زمانے کے واعظ کو تاریخ اقتصادیات اور عمرانیات کے حقائق عظیمہ سے آشنا ہونے کے علاوہ اپنی قوم کے لٹریچر اور تخیل میں پوری دسترس رکھنی چاہئے ۔ الندوہ، علیگڑھ کالج ، مدرسہ دیوبند اور اس قسم کے دوسرے مدارس جو الگ الگ کام کر رہے ہیں اس بڑی ضرورت کو رفع نہیں کرسکتے۔ ان تمام بکھری ہوئی تعلیمی قوتوں کا شیرازہ بند ایک وسیع تر اغراض کا مرکزی دارالعلم ہونا چاہیے جہاں افرادِ قوم نہ صرف خاص قابلیتوں کو نشونما دینے کا موقعہ حاصل کر سکیں بلکہ اسلوب اور سانچہ تیار کیا جاسکے جس میں زمانہ موجودہ کے ہندوستانی مسلمان کو ڈھلنا چاہیے۔ پس یہ امر قطعی طور پر ضروری ہے کہ ایک نیا مثالی دار العلم قائم کیا جائے جس کی مسند نشین اسلامی تہذیب ہو اور جسمیں قدیم و جدید کی آمیزش عجب دلکش انداز سے ہوئی ہو ، اس قسم کی تصویر مثالی کھینچنا آسان کام نہیں ہے ۔ اس کے لئے اعلی تخیل زمانہ کے رجحانات کا لطیف احساس اور مسلمانوں کو تاریخ اور مذہب کے مفہوم کی صحیح تعبیر لازمی ہے ۔ (تفصیل کے لئے دیکھئے: ملت بیضا پر ایک عمرانی نظر صفحہ : ۳۴۔ ۳۷)
مندرجہ بالا اقتباس سے ظاہر کہ علامہ اقبال علوم اسلامیہ کو دینی فکر و تشخص کے ساتھ جدید پیرین میں دیکھنا چاہتے ہیں وہ علوم دینیہ کو جدید سائنٹفک فکر کا ہم دوش بنانا چاہتے ہیں،اُن کی خواہش ہے کہ ہندوستان کے مسلمان جہاں جدید و عصری تعلیم سے آراستہ ہوں وہیں مغرب کی چکا چوند تہذیب سے متاثر ہوئے بغیر اپنی اسلامی تہذیب اور دینی تشخص و شناخت پر نازاں و فرحان ہو۔ نیز علامہ اقبال کی دیرینہ خواہش ہے کہ واعظین اور مبلغین روایتی طرز تعلیم کے علاوہ جدید علوم خاص طور پر قومی ادب، اقتصادیات اور عمرانیات جیسے اہم موضوعات پر بھی توجہ مرکوز کریں ۔ اسی سے علماء و واعظین جدید تعلیم اور مغربی تہذیب کے سبب قوم و ملت کے ذہنوں میں پیدا ہوئی اُلجھن و کشمکش کا مداوا کر سکیں گے اور اُن کی فکر کے مطابق اُن کی بروقت رہنمائی کرکے اُن کے دین و ایمان کی حفاظت کے انتظامات کرپائیں گے ۔ مخفی مبادکہ قدامت سے جہاں تہذیب و تمدن اور تشخص و شناخت کی حفاظت ہوتی ہے وہیں جدت سے وسعت نظری ، رواداری ، ندرت خیالی اور تجسس پیدا ہوتا ہے جس سے تحقیق ، تخلیق اور ایجاد کا سلسلہ شروع ہوتا ہے اور بلا شبہ تقلید اور تحقیق کا امتزاج ہی مردِ مومن کا گرانقدر سرمایہ ہے، اور ایسے ادارہ جات کی شدت سے کمی محسوس کی جاتی ہے کہ وہ طالب علمی کے گھٹی میں اسلامی تہذیب و شعارکو مستحکم کردے اور اسکو روشن خیالی اور ذوق تحقیق و جستجو کے بال و پر عطا کردے تاکہ طالب علم کی جڑیں زمین میں پیوست بھی رہیں اور وہ اپنی عزم و ہمت کے بقدر آسمانوں کی سیر کا اہل بھی ہو ، نیز وہ مکتب ، مسلک، مشرب ، فرقہ بندی ، عصبیت کی زنجیروں سے آزاد ہو کر کھلی فضاؤں میں احترام انسانیت، اکرام آدمیت کے حسین نغمے گاتا ر ہے اور خدمتِ خلق کا نمونہ بنکر دوسروں کو دعوت و پیغام دیتا رہے ؎
’’ برتر از گردوں مقامِ آدم است…اصلِ تہذیب احترامِ آدم است‘‘
اسی پس منظر میں دیوبندی مکتب فکر عالم دین مولانا غلام محمد وستانوی غفر الله ! (ولادت یکم جون ۱۹۵۰ ء وفات ۴ ؍ مئی ۲۰۲۵ء ) کی زندگی کا جائزہ لیا جائے تو ظاہر ہوگا کہ مولانا مرحوم نے اپنی ساری زندگی ملت اسلامیہ کی خدمت کے لئے وقف کی اور اپنی مختصر زندگی میں ایسے کارہائے نمایاں انجام دیئے کہ جسکو دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ اُن کی کاوشوں میں تائید غیبی شامل حال رہی۔ آپ نے اپنی زندگی کے اوائل ہی میں اس بات کو محسوس کر لیا کہ ہندوستانی مسلمانوں کی ترقی دینی اور دنیوی تعلیم میں مضمر ہے نیز اہل اسلام کا معاشی طور پر مستحکم ہونے کے لئے اُن کا تجارت، صنعت اور حرفت کی طرف توجہ کرنا ضروری ہے چنانچہ آپ نے ۱۹۷۹ء میں اکل کوا جامعہ اسلامیہ اشاعت العلوم کی بنیاد رکھی۔ چھ طلباء سے تعلیمی سفر کا آغاز ہوا اور ترقی کرتے ہوئے ایک عظیم دانشگاہ کی شکل اختیار کرلی جہاں ہزارہا طلباء زیور علم سے آراستہ ہو رہے ہیں ۔ ۴۵ ویں سالانہ رپورٹ کے مطابق ادارے کے تحت ۴۴ پرائمری اسکولس، ۳۴ ہائی اسکول، ۱۶ جونیر کالج جس میں میڈیکل کالج انجینئرنگ کالج ، لاء کالج ، فارمیسی کالج کے علاوہ پولی ٹکنیک ، B.Ed, D.Ed نیز صنعتی ، تربیتی ادارے شامل ہیں۔ مزید یہ کہ یہ ادارہ مختلف مقابلہ جاتی امتحانات کی جامع تیاری کے پروگرام فراہم کرتا ہے۔ جس میں (NEET) یونین پبلک سرویس کمیشن (UPSC) ، مہاراشٹرا پبلک سرویس کمیشن (MPSC) ، اسٹاف سیلیکشن کمیشن (S.S.C) شامل ہیں ۔ ادارہ کے احاطہ میں دینی و عصری ادارہ جات میں ہزار ہا طلباء زیر تعلیم ہیں ۵۰۰ سے زائد اسٹاف موجود ہے ۔ مختلف صوبوں میں سو سے زائد شاخیں ، تقریباً ۳۵۰۰ مکاتب کام کر رہے ہیں۔ نیز ادارہ کے تحت ۶۵۰۰ سے زائد مساجد کی تعمیر کی جاچکی ہے۔ ۱۰۰۰ بیواؤں کو وظائف دیئے جاتے ہیں ۔ مختلف علاقہ جات میں ۳۷ دوا خانے کام کر رہے ہیں جن میں ایک ۸۷۰ بستروں پر مشتمل کثیر شعبہ جاتی ہسپتال بھی شامل ہے ۔ طالبات کیلئے ۳۷ اور طلباء کے ۷۹ اقامتی مدارس قائم ہیں ۔ اس کے علاوہ خدمت خلق کے نت نئے پر و گر امس اور کورسس کا اہتمام کیا جاتا ہے ۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ جس شخصیت نے تعلیمی تحریک کا ایک امپائر قائم کیا ہے اس کے دو جانشین با ہمی اتحاد و اتفاق کے ساتھ والد مرحوم کے ادارہ جات کی تنظیم و خدمت میں جان و دل کے ساتھ مصروف عمل ہیں۔ اللہ تعالیٰ مرحوم کی مغفرت فرمائیں ، اِن کی خدمات کو قبول فرمائے اور ان کے جانشینوں کی حفاظت فرمائے اور ان کو اپنے والد مرحوم کے نقش قدم پر خدمات انجام دینے کی توفیق عطا فرمائے ۔ آمین
بجاہ طہٰ و یٰسین