اعظم خان کی رہائی

   

مختصر یہ ہے ہماری داستانِ زندگی
اِک سکونِ دِل کی خاطر عمر بھر تڑپا کئے
اترپردیش میں آج بالآخر سماجوادی پارٹی کے لیڈر سابق ریاستی وزیر محمد اعظم خان کی ضمانت پر رہائی عمل میں آئی ۔ اعظم خان بے شمار مقدمات میں گذشتہ 23 مہینوں سے جیل میں تھے ۔ اعظم خان کے خلاف جس طرح سے اترپردیش کی آدتیہ ناتھ حکومت نے انتقامی رویہ اختیار کرتے ہوئے انتہائی مضحکہ خیز اور ناجائز مقدمات دائر کئے تھے اور ان میں گرفتار کرتے ہوئے جیل بھیج دیا تھا اس کی سارے ملک میں مذمت کی گئی ۔ اعظم خان کے خلاف دائر کردہ مقدمات سارے ملک میں انتقامی سیاست کی علامت اور مثال بن گئے ۔ جس طرح سے انہیں ہراساں کیا گیا ‘ ان کے فرزند کو نشانہ بنایا گیا اور ان کی شریک حیات کو تک بخشا نہیں گیا اس کی ملک میں کبھی بھی اور کہیں بھی کوئی اور نظیر یا مثال نہیں ملتی ۔ یہ مقدمات انتہائی مضحکہ خیز بھی کہے جاسکتے ہیں کیونکہ اعظم خان جیسے لیڈر کے خلاف مرغی چوری ‘ بھینس چوری اور کتابیں چوری کرنے کے مقدمات درج کئے گئے تھے ۔ حیرت اورا فسوس کی بات یہ ہے کہ ان اعظم خان کے خلاف کتابیں چوری کرنے کا مقدمہ درج کیا گیا جنہوں نے اترپردیش کی تاریخ میں ایک نئے دورکو رقم کرتے ہوئے ایک یونیورسٹی قائم کی تھی ۔ اعظم خان نے بے شمار اسکولس قائم کئے تھے جن میں غریب بچوں کو مفت تعلیم دی جاتی تھی ۔ کئی کالجس اعظم خان نے قائم کئے تھے جن کے ذریعہ نوجوانوں کو تعلیم کے زیور سے آراستہ کیا گیا تھا اس کے باوجود ان کے خلاف کتابیں چوری کرنے کا مقدمہ درج کیا گیا ۔ ان کے خلاف مرضی اور بکری چوری کے مقدمات درج کرتے ہوئے انہیں رسواء کرنے میں اترپردیش کی آدتیہ ناتھ حکومت نے کوئی کسر باقی نہیں رکھی تھی ۔ جس طرح سے مقدمات کی پیروی کی گئی وہ بھی انتقامی جذبہ کو ظاہر کرتا ہے کیونکہ معمولی سے معمولی نوعیت کے مقدمات میں ان کو جیل کی سلاخوں کے پیچھے رکھتے ہوئے اترپردیش کے سارے مسلمانوں کے حوصلے اور عزائم پست کرنے کی کوششیں کی گئیں۔ اعظم خان کو نشانہ بناتے ہوئے در اصل سارے اترپردیش کے مسلمانوں کو یہ پیام دینے کی کوشش کی گئی کہ آدتیہ ناتھ حکومت اصولوں اورقوانین کے مطابق نہیں بلکہ سیاسی اور مذہبی عصبیت کی بنیاد پر کام کرتی ہے اور کسی کو بھی نشانہ بنانے سے گریز نہیں کرے گی ۔
اعظم خان کے علاوہ ان کے فرزند عبداللہ اعظم خان اور ان کی اہلیہ کو بھی بخشا نہیں گیا اور ان کے خلاف بھی مقدمات درج کئے گئے ۔ عبداللہ اعظم خان کی اسمبلی کی رکنیت کو برخواست کروایا گیا اور انہیں بھی جیل بھیجا گیا ۔ یہ سارا عمل اترپردیش میں لا قانونیت کو ظاہر کرتا ہے کیونکہ قوانین کے مطابق نہیں بلکہ انتقامی جذبہ کے تحت یہ مقدمات درج کروائے گئے ۔ کئی معاملات میں تو دو دو سال کا عرصہ گذر جانے کے بعد کسی سے زبردست شکایات کا اندراج کروایا گیا اور پھر ان پر کارروائی کی گئی ۔ ایک طرح سے قانون کا مذاق بنا کر رکھ دیا گیا تھا ۔ اصل مقصد اعظم خان اور ان کی طرح عوام کی خدمت کرنے کا جذبہ رکھنے والوں کے حوصلے پست کرنا اور ان کی کمر توڑنا تھا ۔ من مانی انداز اختیار کرتے ہوئے یہ مقدمات درج کئے گئے تھے اور اسی انداز سے تحقیقات بھی کروائی گئی تھیں۔ خود بی جے پی کے کئی قائدین ایسے ہیں جن پر انتہائی سنگین مقدمات درج ہیں۔ ان میں عصمت ریزی ‘ قتل و غارت گری ‘ ثبوت و شواہد کو مٹانا اور اسی طرح کے مقدمات درج ہیں ۔ ان کے خلاف تحقیقات میں کوئی مستعدی نہیں دکھائی گئی اور نہ ہی ایسے سنگین الزامات کا سامنا کرنے والوں کو جیل کی سلاخوں کے پیچھے زیادہ عرصہ رہنے دیا گیا بلکہ ان کے خلاف انتہائی نرم انداز اختیار کرتے ہوئے مقدمات چلائے گئے اور ایسی پیروی کی گئی جس کے نتیجہ میں ان ملزمین کو عدالتوں سے بہت جلد اور بہت آسانی کے ساتھ ضمانتیں بھی حاصل ہوگئیں۔ یہ دوہرے معیارات تھے ۔
اب جبکہ اعظم خان کو تمام مقدمات میںضمانتیں مل چکی ہیں تو ان کی سیتا پور جیل سے رہائی عمل میں آگئی ہے اور وہ رامپور پہونچ گئے ہیں۔ اعظم خان نے جس صبر و استقامت اور تحمل کے ساتھ مقدمات کا سامنا کیا ہے وہ بھی اپنے آپ میں ایک مثال ہے ۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ بھلے ہی مقدمات اور جیل کی وجہ سے ان کی صحت متاثر ہوئی ہو لیکن ان کے عزائم اور حوصلے پست نہیں ہوئے ہیں۔ وہ فرقہ پرستوں اور انتقامی جذبہ رکھنے والوں کے سامنے چٹان کی طرح ڈٹے رہے تھے اور امید کی جاسکتی ہے کہ مستقبل میں بھی ڈٹے رہیں گے ۔