پیار مانگا تو سسکتے ہوئے ارمان ملے
چین چاہا تو امڈتے ہوئے طوفان ملے
ملک میں اشیائے ضروریہ کی قیمتیں ایک بار پھر سے آسمان کو چھونے لگی ہیں۔ مہنگائی اپنی حدوں کو پہونچ رہی ہے اور عوام اس کا بوجھ اٹھاتے ہوئے پریشانیوں کا شکار ہونے لگے ہیں۔ سرکاری طور پر جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق ملک میں افراط زر کی شرح گذشتہ 9 مہینوں میںسب سے زیادہ ہوگئی ہے اوریہ 5.5 فیصد تک پہونچ گئی ہے ۔ اگسٹ میں یہ شرح 4 فیصد سے قدرے کم درج کی گئی تھی اور اب یہ بڑھ کر 5.5 فیصد ہوگئی ہے ۔ افراط زر کی شرح میںاضافہ ریٹیل قیمتوں میں اضافہ کا نتیجہ ہوا کرتی ہے اور اس کے ذریعہ ملک میںمہنگائی کی سطح کا جائزہ لیا جاسکتا ہے ۔ ملک میںاکثر و بیشتر دیکھا جا رہا ہے کہ اشیائے ضروریہ کی قیمتیں چند دن کے وقفہ کے بعد دوبارہ سے بڑھنے لگتی ہیں ۔ جب عوام اس معاملے کو سنجیدگی سے لیتے ہوئے اپنے مسائل کا جائزہ لینے لگتے ہیں تو ایسا لگتا ہے کہ کچھ دن کیلئے عوام کی توجہ ہٹانے کے مقصد سے ان قیمتوں میں معمولی سی کمی لائی جاتی ہے ۔ جب عوام اس تعلق سے قدرے بے فکر ہوجاتے ہیں بالکل ہی خاموشی کے ساتھ ان قیمتوں میں اضافہ کا سلسلہ شروع کردیا جاتا ہے ۔ حکومتیں مہنگائی پر توجہ دیتے ہوئے اسے کم کرنے اور عوام کو راحت پہونچانے پر کبھی بھی سنجیدہ دکھائی نہیں دے رہی ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ انہوں نے مہنگائی کو اپنی ذمہ داری سے نکال باہر کردیا ہے اور عوام پر عائد ہونے والے مالی بوجھ کی انہیں کوئی فکر یا پرواہ نہیں رہ گئی ہے ۔ کہا گیا ہے کہ گذشتہ دو مہینوں سے غذائی اجناس کی قیمتوں میں اضافہ کا سلسلہ شروع ہوا تھا جو لگاتار جاری ہے ۔ ایک اندازہ کے مطابق اگسٹ کے بعد سے اشیائے ضروریہ اور غذائی اجناس کی قیمتوں میں تقریبا 10 فیصد کا اضافہ ہوگیا ہے ۔ خاص طور پر خوردنی تیل اور چاول کی قیمتیں مسلسل بڑھ رہی ہیں۔ یہ اضافہ اتنی خاموشی کے ساتھ ہو رہا ہے کہ عوام کو اس کا احساس ہونے تک صورتحال ان کے قابو سے باہر ہوجاتی ہے ۔ جب تک عوام کو احساس ہونے لگتا ہے کہ قیمتوں میں بہت زیادہ اضافہ ہوگیا ہے اس وقت تک ان کا گھریلو بجٹ پوری طرح سے درہم برہم ہو کر رہ جاتا ہے اور عوام کچھ بھی کر نہیں پاتے ۔
ایسا نہیں ہے کہ قیمتوں میں اضافہ کسی کی توجہ میں نہیں آتا لیکن چونکہ حکومتیں اس معاملے میںکچھ بھی کرنے کو تیار نہیں ہیں بلکہ حکومتوں کو یہ احساس تک نہیں ہونے لگا ہے کہ مہنگائی کی وجہ سے عوام مشکلات کا شکار ہیں اس لئے عوام بھی اب حکومتوں سے کوئی توقع یا امید رکھنے کو ہی فضول سمجھنے لگے ہیں۔ بات صرف خوردنی تیل یا پھر چاول تک محدود نہیںرہ گئی ہے ۔ روز مرہ کے استعمال کی ترکاریاں بھی عوام کی پہونچ سے باہر ہونے لگی ہیں۔ پیاز کی قیمتیں اپنے عروج پر پہونچ چکی تھیں۔ ٹماٹر بھی عوام کیلئے ایک ناقابل خرید شئے بنتا چلا جا رہا ہے ۔ عوام استعمال کی ترکاریوں کی قیمتوں میںاس طرح کا اضافہ عوام کو دو وقت کی روٹی سے بھی محروم کرنے کے مترادف ہے ۔ اکثر و بیشتر حالات میں یہ کہا جا رہا ہے کہ پیداوار میںکوئی خاص تبدیلی یا کمی نہیں آئی ہے لیکن ذخیرہ اندوزی کرنے والے عناصر فائدہ اٹھا رہے ہیں اور عوام کو وقفہ وقفہ سے لوٹنے میں کوئی کسر باقی نہیں رکھ رہے ہیں۔ حکومت ان ذخیرہ اندوزوں کے خلاف کسی طرح کی کارروائی نہیں کرتی ۔ محض عوام کو تسلی یا دلاسہ دینے پر ہی اکتفاء کیا جاتا ہے بلکہ اکثر و بیشتر مواقع پر تو تسلی بھی نہیں دی جاتی ۔ حکومت یہ قبول کرنے کو ہی تیار نہیں ہوتی کہ اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں کسی طرح کا اضافہ ہوا ہے ۔ جب وہ مہنگائی میں اضافہ کا اعتراف ہی نہ کرے تو پھر قیمتوں پر قابو پانے کے اقدامات کی امید کرنا فضول ہی کہا جاسکتا ہے اور عوام اس صورتحال کو ایسا لگتا ہے کہ اچھی طرح سے سمجھ چکے ہیں۔
نریندر مودی 100 دن میں مہنگائی پر قابو پانے کا وعدہ کرتے ہوئے اقتدار پر آئے تھے۔ اب وہ تیسری معیاد کیلئے اقتدار میں ہیں۔ ہزاروں دن گذر چکے ہیں۔ اگر اس وقت سے جائزہ لیا جائے تو قیمتوں میں کمی تو نہیں آئی بلکہ کئی اشیا کی قیمتوں میں 100 فیصد سے زیادہ اضافہ ہوگیا ہے ۔دال ‘ سبزی ‘ دود’ اور ادویات بھی عوام کو واجبی قیمتوں پر دستیاب نہیں ہیں۔ اس صورتحال میں حکومت کو حرکت میں آنے کی ضرورت ہے ۔سنجیدگی کے ساتھ اس مسئلہ کا جائزہ لینا چاہئے اور قیمتوں پر قابو پانے کے اقدامات کرنے چاہئیں تاکہ عوام کو راحت مل سکے اور ان کی جیبوں پر ڈاکہ ڈالنے کا سلسلہ روکا جاسکے ۔