افسپا:قانون یا ہتھیار

   

پی چدمبرم
سابق مرکزی وزیر فینانس و داخلہ
شہر ممبئی میں نومبر 2008ء کے اواخر کے دوران پیش آئے دہشت گردانہ حملوں کے پیش نظر مجھ سے درخواست کی گئی کہ میں وزارت فینانس چھوڑ کر وزارت اُمور داخلہ کی ذمہ داریاں سنبھال لوں۔ یہاں میں اس بات کا اعتراف کرتا ہوں کہ مجھے جب وزارت فینانس سے وزارت امور داخلہ کی ذمہ داری سنبھالنے کی درخواست کی گئی، میں نہیں چاہتا تھا کہ میں اپنی وزارت فینانس چھوڑوں کیونکہ مجھے امید تھی کہ میں بحیثیت وزیر فینانس مئی 2009ء میں اپنی پانچ سالہ میعاد پوری کرلوں گا، لیکن جلد ہی میں اس حقیقت کو سمجھ گیا کہ ملک کی خدمت کیلئے دی گئی ہدایت پر عمل کرنا میرا فریضہ ہے۔ اس طرح میں نے یکم ڈسمبر 2008ء کو وزارت فینانس کو خیرباد کہتے ہوئے وزارت امور داخلہ کی ذمہ داری سنبھالی۔ بحیثیت وزیر داخلہ اپنے عہدہ کا جائزہ حاصل کرنے کے چند ماہ بعد ہی مجھ سے بے شمار تنظیموں، سماجی و حقوق انسانی کے جہد کاروں اور سیاسی جماعتوں نے مسلح افواج کو خصوصی اختیارات دینے والے قانون افسپا 1958 برخاست کرنے یا اٹھالینے کی درخواستیں کی گئیں۔ اس قانون کے تحت مرکزی حکومت کسی بھی علاقہ کو گڑبڑ زدہ علاقہ قرار دیتے ہوئے افسپا کا وہاں اطلاق عمل میں لاسکتی ہے۔ اسی طرح آٹھ ریاستوں میں گورنر (ریاستی حکومت پڑھا جائے) اس اختیار کا استعمال کرسکتے ہیں۔ یہ قانون اپنے تسلسل کے لئے وقت کی حد مقرر نہیں کرتا تاہم سپریم کورٹ نے اس معاملے میں مداخلت کرتے ہوئے متعلقہ حکومت کو اس بات کا پابند بنایا کہ کسی بھی علاقہ کو گڑبڑ زدہ قرار دے کر وہاں افسپا کے اطلاق کے چھ ماہ کی مدت ختم ہونے سے پہلے صورتحال کا تفصیلی جائزہ لے اور اسی کے بعد افسپا قانون کی توسیع کرے یا نہ کرے اس ضمن میں فیصلہ کرے۔ سپریم کورٹ کے اس فیصلے نے حقوق انسانی کے جہد کاروں کو کچھ راحت فراہم کی، ویسے بھی ایک مرتبہ اس قانون کے اطلاق کے ساتھ ہی ریاستی حکومتیں جہاں کسی بھی علاقہ کو گڑبڑ زدہ علاقہ قرار دے سکتی ہیں، وہیں اس کا اطلاق ختم کرسکتی ہے۔ مثال کے طور پر منی پور یہاں وقفہ وقفہ سے قانون کا اعلان کیا جاتا ہے اور اس کا اطلاق عمل میں لایا جاتا ہے۔ اس طرح کا اقدام 1980ء کے دہے سے کیا جارہا ہے۔ آسام میں بھی 2017ء سے اس قانون کا جائزہ لیا جارہا ہے اور ایسا ہر چھ ماہ میں کیا جاتا ہے۔ جہاں تک مرکزی حکومت کا سوال ہے، اس نے باقاعدہ طور پر ناگالینڈ (ساری ریاست) اور اروناچل پردیش (تین اضلاع اور دو پولیس اسٹیشن کے علاقہ) کے تعلق سے مطلع کیا۔
ریاست (مرکز و ریاستی حکومتیں) مسلح افواج ، بری فوج ،فضائیہ اور سنٹرل آرمڈ پولیس فورسیس (سی اے پی ایف) کی مرہون منت ہے۔ یہ ایسے ادارے ہیں جو اس ضمن میں فیصلہ سازی انجام دیتے ہیں۔ مثال کے طور پر یہ ادارے اس بات کا فیصلہ کرتے ہیں کہ فوج کی تعیناتی کہاں عمل میں آئے، اگر دیکھا جائے تو حقیقی اختیار فوج کے ہاتھوں میں ہوتا ہے۔ راقم نے افسپا قانون کا جائزہ لینے کی کوشش کی ہے۔ وہ جائزہ انگریزی کے موقر اخبار ’’انڈین ایکسپریس‘‘ کی 3 مئی 2015ء کی اشاعت میں شائع ہوچکا ہے۔ میں نے یہ بھی دیکھا ہے کہ افسپا قانون کے تحت مسلح افواج کو جو اختیارات تفویض کئے گئے ہیں، وہ انتہائی ظالمانہ ہیں۔ میں نے جن اختیارات کی بات کی ہے، اس میں فوج کو یہ بھی اختیار ہے کہ وہ کسی بھی ڈھانچہ کو یا آسراگھر اور مکانات کو تباہ کرسکتی ہے ۔ یہاں تک کہ فوج اس قانون کا استعمال کرتے ہوئے کسی کو بھی کسی بھی وقت بناء وارنٹ کے گرفتار کرسکتی ہے اور بناء کسی وارنٹ کے تلاشی لے سکتی ہے اور سامان ضبط کرسکتی ہے۔ یہ ایسے اختیارات ہیں جو عام قانون سے بالکل متضاد ہیں اور قانون ضابطہ اخلاق یا ضابطہ فوجداری کے بھی متضاد ہیں کیونکہ سی پی سی میں انتہائی نامساعد حالات میں ہی اس طرح کے اختیارات ایک پولیس عہدیدار کو دیئے جاتے ہیں۔ اور وہ بھی اس صورت میں کہ وہ یہ سوچتا ہے کہ کسی مقام پر پانچ یا پانچ سے زائد افراد جمع ہوں اور اس میں سے ایک شخص پر گولی چلانا بہت ضروری ہے، چاہے اس کا نتیجہ ہلاکت کی شکل میں ہی کیوں نہ نکلے۔ جہاں تک افسپا کا سوال ہے ، مسلح افواج کے اہلکار طاقت کے استعمال کے بارے میں نہیں سوچتے اور اکثر مہلک طاقت کا استعمال قابل نظرانداز ہوتا ہے، اس کے باوجود مسلح افواج، امکانات پر غور نہیں کرتی بلکہ وہ زیادہ سے زیادہ طاقت کا استعمال کرتے ہیں۔ اس کی وجہ ہے اور وہ یہ ہے کہ افسپا قانون کی دفعہ 6 مسلح افواج کے اہلکاروں کو قانونی کارروائی سے استثنیٰ دیتی ہے۔ باالفاظ دیگر حقیقی طور پر یہ دفعہ مسلح افواج کے اہلکاروں کو ایک طرح سے معافی دے کر ان کی حوصلہ افزائی کرتی ہے جبکہ ہر کوئی یہ اچھی طرح جانتا ہے کہ پولیس والوں کو جو عام قسم کے اختیارات دیئے گئے ہیں، اس کا بھی بیجا استعمال ہوتا ہے اور اس بیجا استعمال کو ریاستی پالیسی منظوری دیتی ہے۔ مثال کے طور پر اترپردیش میں جہاں انکاؤنٹرس کے تعلق سے فخریہ انداز میں تشہیر کی جاتی ہے ، وہ نفاذ قانون کی پالیسی ہے، اس میں وہاں انکاؤنٹرس کو بہت زیادہ اہمیت دی گئی ہے۔ بہرحال ایک ایسی ریاست جسے گڑبڑ زدہ علاقہ قرار دیا جائے، وہاں مسلح افواج انتہائی دباؤ میں کام کرتی ہیں اور افسپا جیسا قانون ان کیلئے ایک ہتھیار بن جاتا ہے۔
جہاں تک افسپا قانون کی منسوخی کے مطالبات کا سوال ہے، یہ کوئی نئے مطالبات نہیں ہیں۔ سال 2005ء میں جسٹس جیون ریڈی کمیٹی نے اس قانون کی منسوخی کی سفارش کی تھی اور اس کمیٹی کی سفارشات یا نکتہ نظر کی بعد میں قائم کئے گئے کمیشنوں اور کمیٹیوں نے توثیق کی۔ ان کا بھی یہی کہنا تھا کہ افسپا قانون کو منسوخ کردیا جائے۔ آخری مرتبہ جسٹس جے ایس ورما کمیٹی نے اپنی سفارشات میں افسپا کے تسلسل کو جاری رکھنے سے متعلق جائزہ لینے کو وقت کی اہم ترین ضرورت قرار دیا تھا اور کہا تھا کہ اس کا ازسرنو جائزہ لینا چاہئے۔ میری نظر میں افسپا قانون کو منسوخ کرنا ضروری ہے، کیونکہ ہمارے ملک میں دیگر ایسے کئی قوانین ہیں جن کے ذریعہ انتہا پسندی اور دہشت گردی کے واقعات سے نمٹا جاسکتا ہے ، اس سلسلے میں یو اے پی اے اور این آئی اے (نیشنل انویسٹی گیشن ایکٹ) ایسے قوانین ہیں جس کا اہم استعمال کرسکتے ہیں۔ ویسے بھی یو اے پی اے کے اطلاق سے متعلق حکومت اور بالخصوص حقوق انسانی کے جہد کاروں کو تلخ تجربات ہوچکے ہیں۔ اس قانون کا بھی جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔ مرکزی حکومت اور اس کے تحت کام کرنے والی وزارت داخلہ چاہے تو یہ قانون منسوخ کیا جاسکتا ہے۔ مثال کے طور پر آسام کا کیس ہمارے سامنے ہے۔ سال 2017ء میں وزارت اُمور داخلہ نے حکومت ِآسام سے کہا کہ وہ افسپا ہٹا دے پھر ان علاقوں میں کمی کردے جہاں اس سیاہ قانون کا اطلاق عمل میں لایا گیا ہے، لیکن حکومت آسام نے وزارت اُمور داخلہ کے مشورہ کو ماننے سے انکار کردیا۔ سال 2018ء میں امور داخلہ کی اسٹانڈنگ کمیٹی نے حکومت آسام سے یہ دریافت کیا کہ آخر کیا ضرورت پیش آئی کہ تمام ریاست کو گڑبڑ زدہ قرار دیا جانا چاہئے، حالانکہ وزارت اُمور داخلہ نے اسے اٹھانے کا مشورہ دیا تھا لیکن حکومت آسام نے اس سوال کی کوئی وضاحت نہیں کی۔
4 ڈسمبر 2021ء کو 13 شہری مارے گئے ، ان کی ہلاکتوں کے بعد (جو غلط شناخت کا کیس تھا جس میں فوج نے معذرت خواہی کرلی) ۔ منی پور ، ناگالینڈ اور میگھالیہ کے چیف منسٹروں نے افسپا قانون کی منسوخی کا پرزور مطالبہ کیا۔ خاص طور پر منی پور کے چیف منسٹر کی اپیل معنی خیز تھی، کیونکہ وہ ریاستی حکومت ہی تھی جس نے اس قانون کا اطلاق عمل میں لایا ۔ چیف منسٹر چاہتے تو کوئی انہیں مجبور نہیں کرسکتا تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ 2004ء سے حکومت بہت زیادہ مطلق العنان بن گئی ہے۔ ہاں ! انتہائی ناگزیر حالات میں پولیس اور مسلح افواج کو تعینات کیا جاتا ہے اور وہ بھی داخلی سلامتی کے لئے تب وہ بہت زیادہ مطلق العنان بن جاتے ہیں ، آج افسپا غلطیوں کو چھپانے کی ایک ڈھال بن گئی ہے، ایک ہتھیار بن گیا ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ خود مسلح افواج میں افسپا قانون کی منسوخی کی تائید و حمایت میں آوازیں اٹھ رہی ہیں ، اس کے باوجود قابل افسوس خاموشی چھائی ہوئی ہے۔ بحیثیت وزیر داخلہ میں نے افسپا کی منسوخی کی تائید کی اور متبادل کے طور پر میں نے قانون میں ترمیم کی التجا کی لیکن میں ناکام رہا اور اس بارے میں راقم نے 2015ء کے اپنے کالم میں وجوہات بیان کی۔ آج ہمارے ملک میں ایک مطلق العنان اور آمرانہ حکومت ہے۔ایک آمر وزیراعظم ہے ، ایک آمر وزیر داخلہ ہے۔ ایسے میں قانون کی منسوخی تو دور اس میں ترمیمات کے امکانات بھی صفر ہیں۔ اب ایک ہی ذریعہ ہے اور وہ دستوری عدالتیں ہیں۔