افغانستان: سکیوریٹی بہتر ، انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں میں اضافہ

   

طالبان ماورائے عدالت قتل، انسانیت سوز کارروائیوں میں ملوث :اقوامِ متحدہ،طالبان نے الزامات مستر دکردئے

نیویارک : اقوام متحدہ نے افغانستان میں انسانی حقوق کی صورتحال سے متعلق کہا ہے کہ طالبان کے حکومت میں آنے کے بعد سے سکیورٹی میں بہتری آئی ہے لیکن اس دوران سینکڑوں افراد بھی ہلاک ہوئے۔ اے پی کے مطابق اقوام متحدہ کے افغانستان میں امدادی مشن (یوناما) نے چہارشنبہ کو شائع ہونے والی رپورٹ میں افغان خواتین اور بچیوں کو درپیش مشکل حالات کو بھی اجاگر کیا ہے۔ رپورٹ میں یہ بھی بتایا ہے کہ طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد کس طرح سے خواتین اور بچیوں کو ان کے بنیادی حقوق سے محروم کیا گیا۔افغانستان میں اقوام متحدہ کے مشن (یو این اے ایم اے) نے کہا ہے کہ طالبان حکمران اپنے موجودہ اقتدار کے 10 ماہ کے دوران ماورائے عدالت قتل، تشدد، بلا قانونی جواز گرفتاریوں اور انسانیت سوز سزاؤں کے ذمہ دار ہیں۔ اخبار میں شائع رپورٹ کے مطابق یو این اے ایم اے کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ طالبان کی جانب سے متعدد گروہوں کو ان خلاف ورزیوں کا نشانہ بنایا گیا، ہدف بنائے گئے افراد میں برطرف کی گئی حکومت سے وابستہ عہدیدار، انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والے کارکن اور صحافی شامل ہیں۔اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ طالبان کے دور حکمرانی میں خواتین کے حقوق بھی غصب کیے گئے ہیں۔افغانستان کے لیے اقوام متحدہ کے نمائندہ خصوصی مارکس پوٹزیل نے کہا کہ ’ہماری مانیٹرنگ سے ظاہر ہوتا ہے کہ 15 اگست کے بعد سے اگرچہ سکیورٹی صورتحال میں بہتری آئی لیکن افغانستان کے عوام بالخصوص خواتین اور بچیوں کو ان کے مکمل حقوق نہیں دیے گئے۔‘رپورٹ کے مطابق اگست 2021 میں طالبان کے ملک پر قبضے کے بعد سے 700 افراد ہلاک جبکہ 14 سو زخمی ہو چکے ہیں۔ ان میں سے زیادہ تر افراد کالعدم تنظیم داعش کے حملوں کا نشانہ بنے جو گزشتہ ایک سال میں سکولوں، عبادتگاہو اور دیگر عوامی مقامات کو نشانہ بنا چکی ہے۔طالبان نے حکومت میں آنے کے بعد بچیوں کی تعلیم اور خواتین کے کام کرنے پر پابندیاں عائد کر رکھی ہے جبکہ کسی خاتون کو محرم کے بغیر اکیلے سفر کی اجازت نہیں۔اقوام متحدہ کے مطابق لڑکیوں کے سیکنڈری سکول بند رکھنے کا مطلب ہے کہ یہ 12سالوں پر مشتمل بنیادی تعلیم پوری نہیں کر سکیں گی۔ دوسری طرف طالبان نے انسانی حقوق سے متعلق اقوام کی رپورٹ کو بے بنیاد قرار دیتے ہوئے اسے مسترد کر دیا ہے۔ طالبان حکومت کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے اپنے ایک ٹویٹ پیغام میں لکھا، ”من مانی گرفتاریوں اور ماورائے عدالت قتل کی قطعی اجازت نہیں ہے۔ان کا مزید کہنا تھا کہ جو بھی اس طرح کی خلاف ورزیوں کا مرتکب پایا جائے گا اسے مجرم سمجھا جائے گا اور اسے شرعی قانون کے مطابق سزا دی جائے گی۔طالبان کا یہ بھی کہنا ہے کہ انہوں نے اپنی صفوں کو ایسے عناصر سے پاک کرنے کا عمل بھی شروع کر دیا ہے جو ان کی ہدایات پر پوری طرح سے عمل نہیں کرتے ہیں۔