افغانستان میں طالبان کی اقتدار پر واپسی کے روشن امکانات

,

   

ہندوستان کو طالبان سے رابطے میں رہنے دفاعی و سفارتی ماہرین کا مشورہ

نئی دہلی 17 جنوری (سیاست ڈاٹ کام) افغانستان میں امریکہ کی حالت بہت ابتر ہوتی جارہی ہے۔ ڈونالڈ ٹرمپ امریکی فورسیس کو افغانستان سے جلد سے جلد نکالنے یا اس کے تخلیہ کے خواہاں ہیں۔ انھیں اندازہ ہوگیا ہے کہ طالبان انتہائی سخت جان ہیں۔ وہ اور افغان قوم امریکی غلامی کا طوق اپنے گلے میں ہرگز نہیں ڈالیں گے بلکہ امریکی طوق کو ہی امریکی فورسیس کی تباہی و بربادی کا ذریعہ بنادیں گے۔ یہی وجہ ہے کہ امریکی صدر کی خصوصی ہدایت پر امریکی نمائندے زلمے خلیل زاد طالبان کو بات چیت کی میز پر لانے کی کوشش کررہے ہیں۔ اس سلسلہ میں پاکستان کی مدد حاصل کی جارہی ہے۔ ان حالات میں ہندوستان کو بھی دفاعی و سفارتی ماہرین طالبان سے ربط پیدا کرتے ہوئے ان سے بات چیت کا مشورہ دینے لگے ہیں۔ ان ماہرین میں سابق نائب مشیر قومی سلامتی تیش چندرا بھی شامل ہیں۔ ان ماہرین کے خیال میں افغانستان میں اقتدار پر طالبان کی واپسی ناگزیر اور یقینی ہے۔ مرکزی وزیر سشما سوراج کی جانب سے افغانستان میں حالیہ تبدیلیوں کے بارے میں جو بیانات جاری کئے گئے ہیں اس سے طالبان کے ساتھ ہندوستان کے ربط اور افغانستان سے مستقبل کے تعلقات پر روشنی پڑی ہے۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق تیش چندرا کا کہنا ہے کہ افغانستان سے امریکی فورسیس کے انخلاء کی باتیں ہورہی ہیں۔ سب طالبان سے بات چیت کررہے ہیں۔

ہمیں کیوں طالبان سے مذاکرات نہیں کرنی چاہئے۔ ابتداء میں عقبی چیانلوں سے ہم اُن (طالبان) سے ربط پیدا کرسکتے ہیں۔ تیش چندرا کا یہ بھی کہنا تھا کہ طالبان کے ساتھ ہندوستان کے تجربات تلخ رہے ہیں۔ خاص طور پر ایرلائنز کی پرواز نمبر IC 814 کے اغواء اور دہشت گردوں کی افغان سرزمین کو آماجگاہ بنائے جانے کے مسئلہ پر ہندوستان کو طالبان سے تلخ تجربات کا سامنا کرنا پرا تھا۔ اس کے باوجود تیش چندرا کہتے ہیں کہ موجودہ حالات میں طالبان کے ساتھ ربط سے عملاً ہندوستانی مفادات کے تحفظ میں مدد ملے گی۔ ایسے ہی خیالات کا اظہار سابق سفارتکار راکیش سود نے بھی کیا۔ ان کا کہنا ہے کہ موجودہ افغان صدر اشرف غنی اپنی ساکھ کھوچکے ہیں۔ طالبان کے اقتدار پر واپس آنے کے امکانات کافی روشن ہیں۔ ایسے میں روس سے لے کر یوروپی ممالک اور ایرانی سب کے سبب طالبان کے بارے میں باتیں کررہے ہیں۔ وہ مزید کہتے ہیں کہ 90 کے دہے میں جب طالبان اُبھرے تھے تب ہندوستان کے لئے محدود امکانات تھے۔ ہم صرف شمالی اتحاد، ایران اور روس کے ساتھ ملکر کام کرسکتے تھے لیکن آج ہمارے لئے امکانات محدود نہیں ہیں۔ ہمیں اب یہ نہیں دیکھنا چاہئے کہ کابل میں کس کا اقتدار ہوگا۔ چندرا یہ بھی کہتے ہیں کہ ہندوستان نے ہمیشہ افغانستان کی مدد کی ہے اور پاکستان کی طرح افغانستان میں اس کے کوئی عزائم بھی نہیں ہے۔ ایسے میں طالبان کے ساتھ تعلقات قائم کئے جاسکتے ہیں۔ آپ کو بتادیں کہ گزشتہ سال نومبر میں افغانستان پر روس نے ماسکو میں ایک اجلاس کی میزبانی کی۔ ہندوستان نے غیر سرکاری سطح پر اس میں شرکت کی جبکہ طالبان بھی اجلاس میں موجود تھے۔