میڈیا کے بعض گوشے افواہیں پھیلا رہے ہیں ،کوئی بھی معاملت افغانستان سے امریکی فوج کی واپسی سے مشروط رہے گی
کابل ۔ 30 ۔ ڈسمبر (سیاست ڈاٹ کام) طالبان نے آج تردید کی کہ انہوں نے افغانستان میں جنگ بندی سے اتفاق کیا ہے جبکہ ممکنہ امن معاملت کی افواہیں گرم ہیں۔ سمجھا جارہا تھا کہ امن معاملت طئے ہوجائے تو زائد از 18 سال سے جاری جنگ میں کمی آئے گی اور شہریوں کو کچھ راحت ملے گی۔ شورش پسندوں کا بیان اس پس منظر میں ہے کہ مقامی اور بین الاقوامی کورس موسم سرما میں ایک اور خونریز کارروائی کی تیاری کر رہی ہے ۔ اسے ٹالنے کیلئے امریکہ۔طالبان بات چیت ہورہی ہے۔ امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے رواں سال کے اوائل شورش پسندانہ حملوں کو دیکھتے ہوئے مذاکرات روک دیئے تھے ۔ طالبان نے کہا کہ گزشتہ چند دنوں میں بعض میڈیا گوشے غیر درست رپورٹ جاری کر رہے ہیں۔ سیز فائر کا انہوں نے کوئی اعلان نہیں کیا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اسلامی امارت افغاستان کا جنگ بندی کا کوئی منصوبہ نہیں ہے۔ وال اسٹریٹ جرنل میں بھی ایک رپورٹ شائع ہوئی جس میں بتایا گیا کہ طالبان گروپ عارضی صلح کا اعلان کرنے والا ہے۔ امریکہ اور افغان حکومت کابل میں طویل عرصہ سے طالبان کے ساتھ سیزفائر طئے کرنے کوشاں ہیں۔ تاہم، شورش پسندوں نے بار بار بیان کیا ہے کہ کوئی بھی ممکنہ مصالحت صرف امریکی دستوں کی ملک سے دستبرداری کے بعد ہی طے پاسکتی ہے۔ امریکہ۔ طالبان بات چیت بنیادی طور پر دوحہ میں منعقد ہوئی اور اس کا مقصد واشنگٹن کو مختلف سکیورٹی ضمانتوں کے عوض فوجی دستے ہٹانے کی شروعات کا موقع فراہم کرنا رہا ہے۔ وہ معاملت طے کرلینے کے قریب پہنچ گئے تھے کہ ٹرمپ نے یہ مساعی سپٹمبر میں ترک کردی، جس کی وجہ طالبان کا تشدد بتایا۔ اس کے بعد مذاکرات دوحہ میں دوبارہ شروع ہوئے لیکن اِس ماہ کے اوائل ’’توقف‘‘ آگیا۔ ٹرمپ افغانستان میں فوجی دستوں کی موجودگی کو گھٹانے کوشاں ہیں، ممکنہ طور پر اس سے قبل کہ واشنگٹن اور طالبان کے درمیان معاملت طے پاجائے۔
امن معاملت پر مقید طالبان کو آزادی
افغانستان میں ہزاروں طالبان قیدی جو شورش پسندوں کے طور پر محروس کئے گئے، انہیں امریکہ اور طالبان کے درمیان امن معاملت کا بے چینی سے انتظار ہے کیونکہ معاملت طئے پانے کی صورت میں انہیں آزادی مل سکتی ہے۔ تقریباً 5000 طالبان قیدیوں کی رہائی معاملت کے مذاکرات میں شامل کی گئی ہے۔ ایک طالبان عہدیدار نے شناخت پوشیدہ رکھنے کی شرط پر کہا کہ امریکی اور افغان حکومت کے عہدیداروں نے بتایا ہے کہ مقید طالبان کی رہائی مذاکرات اور ممکنہ امن معاملت کا حصہ ہے ۔
شمالی افغانستان میں طالبان حملہ، 14 ہلاک
دریں اثناء طالبان نے شمالی افغانستان میں پیر کو طلوع آفتاب سے قبل ایک موافق حکومت ملیشیا کمپاؤنڈ کو نشانہ بنایا، جس کے نتیجے میں افغان سکیورٹی فورسیس کے 14 ارکان ہلاک ہوگئے، ایک مقامی عہدہ دار نے یہ بات بتائی۔ طالبان نے فوری اس حملہ کی ذمہ داری قبول کرلی ہے۔ یہ حملہ ایسے وقت ہوا جبکہ طالبان عہدیداروں نے نیوز ایجنسی ’اسوسی ایٹیڈ پریس‘ کو چند گھنٹے قبل ہی بتایا تھا کہ عارضی اور ملک گیر سیزفائر پر ان کے شوریٰ قائدین میں اتفاق رائے ہوچکا ہے۔ یہ واضح نہیں ہے کہ فائربندی کب نافذ العمل ہوگی۔ گورنر کے ترجمان عبد المعروف نے کہا کہ صوبہ جازجان میں صبح کی ابتدائی ساعتوں میں ہلاک 14 مہلوکین میں سے 13 موافق حکومت ملیشیا کے ارکان تھے اور ایک پولیس ملازم تھا۔ پانچ دیگر ملیشیا ارکان زخمی ہوئے اور دو لاپتہ ہیں۔ ترجمان نے کہا کہ جلد ہی کمک علاقے کو پہنچ گئی اور اب کمپاؤنڈ پوری طرح حکومتی کنٹرول میں ہے۔ طالبان گزشتہ چند ہفتوں سے وقفہ وقفہ سے افغانستان میں امریکی و حکومتی ٹھکانوں کو نشانہ بناتے رہے ہیں۔