افغانستان میں حالات انتہائی گہما گہمی والے اور تشویشناک ہوگئے ہیں۔ طالبان نے عملا سارے ملک پر کنٹرول حاصل کرلیا ہے۔ افغانستان حکومت کا وجود ختم ہوچکا ہے ۔ صدارتی عہدہ پر فائز رہتے ہوئے اشرف غنی نے ملک سے فرار اختیار کرلی ہے ۔ ان کا یہ عذر ہے کہ ملک میں خون خرابہ کو روکنے کیلئے انہوں نے ملک سے دوری اختیار کرنا ہی بہتر سمجھا ہے ۔ ان کے چلے جانے کے بعد تو سارا ملک طالبان کے رحم و کرم پر آگیا ہے ۔ بیرونی سفیر ‘ نمائندے ‘ خود افغانستان کے وزراء اور قائدین اور مقامی عوام ملک سے باہر جانے کیلئے بے چین ہیں۔ کابل ائرپورٹ کی جو صورتحال ہوگئی ہے وہ سارے ملک کے حالات کی عکاسی کرتی ہے ۔ ائرپورٹ پر کسی کا کنٹرول نہیں رہ گیا ہے ۔ لوگ رن وے تک ہجوم کی شکل میں پہونچ چکے ہیں۔ طیاروں میں سوار ہونے کی ایسی کوشش کر رہے ہیں جیسے بسوں میں سوار ہونے ایک دوسرے پر سبقت لیجاتے ہیں۔ سارے ملک میں گہما گہمی اور افرا تفری مچی ہوئی ہے ۔ کسی کو یہ تک پتہ نہیں ہے کہ کون کس سمت میں دوڑ رہا ہے ۔ ملک کے حالات کا کنٹرول کس کے پاس ہے ۔ کوئی ہے جو کسی کو احکام جاری کرنے کے موقف میں ہے ۔ کس کے احکام پر طالبان عمل کرسکتے ہیں۔ یہاں کوئی نیٹ ورک دکھائی نہیں دے رہا ہے ۔ لوگ غیر یقینی حالات کا شکار ہوگئے ہیں۔ حالات کے رحم و کرم پر میدانوں اور پارکس میں قیام کرنے پر مجبور ہوگئے ہیں۔ جو لوگ فرار ہوسکتے تھے انہوں نے ملک چھوڑ دیا ہے ۔ بے شمار لوگ پاکستان چلے گئے ہیں۔ کئی قائدین ملک چھوڑ رچکے ہیں۔ جو لوگ پہلے ہی سے ملک سے باہر ہیں وہ اپنے افراد خاندان کی سلامتی اور تحفظ کیلئے فکرمند ہیں۔ یہ لوگ کسی بھی طرح اپنے افراد خاندان کو سلامتی کے ساتھ ملک سے باہر چلانا چاہتے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ کابل ائرپورٹ پر کسی کا کنٹرول نہیں رہ گیا ہے ۔ بے ہنگم حالات میں کسی کو یہ تک پتہ نہیں ہے کہ کونسی فلائیٹ کہاں روانہ ہونے والی ہے اور اس میں کون کون سوار ہوچکے ہیں۔ یہ ایسی صورتحال کا جس کا کوئی تصور نہیں تھا لیکن اچانک ہی حالات نے جو پلٹی کھائی ہے اس نے حد درجہ گہما گہما پیدا کردی ہے ۔
موجودہ حالات میں سب سے اہم سوال یہی ہے کہ اب جبکہ افغان حکومت کا وجود ختم ہوچکا ہے ‘ صدر اشرف غنی فرار ہوچکے ہیں ‘ ملک پر طالبان کا قبضہ ہوچکا ہے تو افغانستان اور افغان عوام کا مستقبل کیا ہوگا؟ ۔ افغانستان کے داخلی حالات کو بہتر اور مستحکم بنانے اور سدھار لانے کیلئے طالبان کس کی مدد قبول کرینگے یا کسی کا کوئی رول قبول کرینگے یا نہیں یہ ایک اہم سوال ہے ۔ افغانستان کے حالات کا سارے جنوبی ایشیا کے حالات پر اثر ہونا لازمی ہے ۔ سارے علاقہ کی سلامتی اور استحکام افغانستان کی صورتحال سے متاثر ہوسکتا ہے ۔ طالبان کیلئے ضروری ہے کہ وہ موجودہ حالات میں حد درجہ تحمل کا مظاہرہ کریں۔ سب سے پہلے افغان عوام میں اعتماد پیدا کرنے کی کوشش کی جائے ۔ انہیں یہ طمانیت دلائی جائے کہ ان کے ساتھ کوئی ظلم و زیادتی نہیں ہوگی ۔ بے ہنگم فیصلے نہیں کئے جائیں گے ۔ ایک ملک کو ایک ملک کی طرح منظم انداز میں چلایا جائیگا ۔ عوام کی جان و مال اور عزت و آبرو کی حفاظت کی جائے گی ۔ جو اندیشے طالبان کے کنٹرول حاصل کرلینے سے پیدا ہوگئے ہیں ان کو دور کیا جائے ۔ سب سے پہلے سارے ملک میں نظم کو بحال کیا جائے ۔ عوام کو یہ احساس دلایا جائے کہ حالات کو بہتر بنانے کیلئے کوئی موجود ہے ۔ صرف صدارتی محل پر قبضہ کرلینے یا پھر امارت کا اعلان کردینے سے ملک کے حالات میں بہتری پیدا نہیں ہوسکتی ۔ عوام کو طمانیت دلانا بہت ضروری ہے اور ایسا لگتا ہے کہ یہی طالبان کیلئے سب سے بڑا اور اولین امتحان ہوگا ۔
افغانستان کی آج جو صورتحال ہے وہ 20 سال قبل کے حالات سے بھی بدتر دکھائی دیتی ہے ۔ طالبان کو اقتدار سے بیدخل کرتے ہوئے امریکہ نے وہاں ذمہ سنبھالا تھا ۔ 20 سال تک جنگ کرنے اور لاکھوں کروڑ ڈالرس خرچ کرنے کے بعد امریکہ کو بمشکل تمام اپنا دامن بچاتے ہوئے راہ فرار اختیار کرنی پڑی ہے ۔ اب ذمہ داری اقوام متحدہ یا پھر علاقہ کے ذمہ دار ممالک کی ہے کہ وہ کسی مفاد پرستی کے بغیر افغانستان کے امن و استحکام اور افغان عوام کی بہتری کیلئے اپنا رول ادا کریں۔ صورتحال کا استحصال کرنے کی کوششیں ہرگز قابل قبول نہیں ہوسکتیں ۔ ملک کا استحکام اور عوام کی طمانیت ہی سب کا اولین مقصد ہونا چاہئے ۔
