مِرے خلوص کی حد یہ تجھے معاف کیا
یہ اور بات تیرا قتل اختیار میں ہے
اقتدار کیلئے بی جے پی کی ڈوغلی پالیسی
مرکز اور ملک کی بیشتر ریاستوں میں اقتدار پر رہنے والی بی جے پی ایسی لگتا ہے کہ اقتدار کے حصول اورا س کی برقراری کیلئے کسی بھی حد تک جانے کیلئے تیار ہے ۔ اپوزیشن جماعتوں کو ا ن کے قائدین کی غلطیوں اور ان کے خلاف مقدمات کے نام پر نشانہ بنانے والی بی جے پی اب ہریانہ میں اپنے اقتدار کیلئے ایسے ارکان اسمبلی کی بھی مدد حاصل کرنے سے گریز نہیں کر رہی ہے جن کے خلاف عصمت ریزی جیسے سنگین الزامات بھی ہیں۔ ان ارکان اسمبلی میں ہریانہ لوک ہت پارٹی کے گوپال کاندا بھی شامل ہیں۔ بی جے پی نے ہریانہ میں معلق اسمبلی کی تشکیل کے فوری بعد گوپال کاندا کی خدمات حاصل کرلیں۔ بی جے پی کی ایک رکن پارلیمنٹ انہیں طیارہ میں لے کر دہلی پہونچ گئیں ۔ دہلی میں بی جے پی کے مرکزی قائدین سے ملاقات کے بعد کاندا نے بی جے پی کی تائید کا اعلان کردیا ۔ اس کے علاوہ بی جے پی دوسرے آزاد ارکان کی تائید حاصل کرنے میں بھی جٹ گئی ہے اور انہیں بھی اپنی صفوں میں لانے کیلئے ہر ممکن طریقے اختیار کئے جا رہے ہیں۔ جہاں تک گوپال کاندا کا معاملہ ہے ان پر سنگین الزامات ہیں۔ ان پر عصمت ریزی اور دو خواتین کو خود کشی کیلئے مجبور کرنے کا الزام بھی ہے ۔ حالانکہ ابھی ان کے خلاف مقدمہ عدالت میں زیر دوران ہے لیکن انہیں داغدار ہی کہا جاسکتا ہے کیونکہ عدالت نے انہیں ابھی بری بھی نہیں کیا ہے ۔ ایسے میں بی جے پی جو دوسری جماعتوں اور خاص طور پر اپنی مخالف جماعتوں کے قائدین پر الزامات اور مقدمات پر انہیں اخلاقیات کا درس دیتے نہیں تھکتی وہ گوپال کاندا کی تائید ہریانہ میں حکومت بنانے کیلئے حاصل کرنے میں کوئی عار محسوس نہیںکر رہی ہے ۔ یہ بی جے پی کی ڈوغلی پالیسی اور دوہرا معیاد ہے ۔ وہ اخلاقیات کے معاملہ میں دیگر جماعتوں کو تو درس دیتی ہے لیکن خود اقتدار ہتھیانے کیلئے کسی بھی حد تک جانے کیلئے ہمیشہ تیار رہتی ہے ۔ ہریانہ میں تمام تر دعووں اور ہتھکنڈوں کے باوجود بی جے پی اقتدار کو برقرار رکھنے میں کامیاب نہیں ہوسکی ہے اور وہاں معلق اسمبلی تشکیل پائی ہے جس سے پارٹی کے دعوے کھوکھلے ثابت ہوگئے ہیں۔
کانگریس کے کئی قائدین کو مسلسل ہراساں کرنے اور انہیں جیل بھیج کر ان پر تنقیدیں کرنے والی بی جے پی اپنی صفوں میں شامل دوسرے داغدار قائدین کو پاک صاف قرار دینے میںسب سے آگے ہوتی ہے ۔ کانگریس کے پی چدمبرم کے خلاف کارروائی کرکے انہیں جیل بھیجا گیا۔ ڈی کے شیو کمار کو جیل بھیجا گیا جہاں ان کو ضمانت مل گئی ۔ اسی طرح دوسری جماعتوں کے قائدین کو نوٹسیں جاری کرتے ہوئے ہراساں کیا جا رہا ہے جن میں این سی پی کے شرد پوار اور اجیت پوار بھی شامل ہیں۔ شرد پوار کے خلاف نوٹس کا سیاسی خمیازہ تو مہاراشٹرا میں بی جے پی کو بھگتنا پڑا ہے ۔ اسی طرح ترنمول کانگریس کے قائدین کو بھی نوٹس جاری کی گئی ۔ تلگودیشم کے قائدین کو اسی طرح کی نوٹسوں کے ذریعہ ہراساں کیا گیا ۔ جب تلگودیشم کے تین ارکان راجیہ سبھا اور ترنمول کے کچھ قائدین ان نوٹسوں کی اجرائی کے بعد بی جے پی میں شامل ہوگئے تو ان کے خلاف مقدمات کو بھی برفدان کی نذر کردیا گیا ۔ اب ان مقدمات یا نوٹسوں کا کوئی تذکرہ تک نہیں کیا جا رہا ہے جبکہ ہر مباحثہ اور تقریر میں بی جے پی قائدین کانگریس کو اس کے قائدین پر مقدمات کی وجہ سے تنقید کا نشانہ بناتے ہیں۔ لیکن جب خود کے اقتدار کی بات آتی ہے تو نہ مقدمات کی پرواہ کی جاتی ہے اور نہ اخلاقیات کا کوئی سبق بی جے پی کو یاد رہتا ہے ۔ یہ اقتدار کیلئے اس کی لالچ اور اس کی حرص کا اظہار ہے ۔
ہریانہ میں معلق اسمبلی تشکیل پائی ہے ۔ ابھی جب تمام نتائج کا اعلان تک نہیں ہوا تھا بی جے پی صدر امیت شاہ نے یہ دعوی کردیا تھا کہ ہریانہ میں بھی بی جے پی کی حکومت ہوگی ۔ اسی اعلان سے پتہ چلتا تھا کہ بی جے پی وہاں ارکان کی خرید و فروخت کریگی اور اخلاقیات و اقدار کو ہر ممکنہ حد تک پامال کیا جائیگا ۔ اس اعلان کے بعد شام میں جب یہ واضح ہوگیا کہ بی جے پی کو اپنے طور پر اقتدار نہیں ملا ہے تو گوپال کاندا کو پارٹی کی ایک رکن پارلیمنٹ دہلی لے گئیں اور وہاں انہوں نے بی جے پی مرکزی قائدین سے ان کی ملاقات کروائی اور پھر کاندا نے بی جے پی کی تائید کا اعلان کردیا ۔ ملک کی سب سے بڑی پارٹی ہونے اور برسر اقتدار ہونے کے ناطے بی جے پی کو اپنے رویہ میں تبدیلی لانے کی ضرورت ہے ۔ اسے داغدار کردار کے حامل افراد کی تائید سے اقتدار حاصل کرنے سے گریز کرنا چاہئے ۔