بہت حسین سہی صحبتیں گُلوں کی مگر
وہ زندگی ہے جو کانٹوں کے درمیاں گزرے
ہندوستان مذہبی رواداری والا ملک ہے ۔ یہاں کئی مذاہب کے ماننے والے رہتے بستے ہیں اور اپنے اپنے مذہبی تہوار روایتی جوش و خروش کے ساتھ مناتے ہیں۔ دوسرے مذاہب کے ماننے والے بھی ان تہواروں میں بھائی چارہ کی مثال قائم کرتے ہوئے حصہ لیتے ہیں۔ ان تہواروں کی تقاریب اور خوشیوں میں شریک ہوتے ہیں۔ ہندوستان کو اسی وجہ سے مذہبی رواداری اور بھائی چارہ والا ملک کہا جاتا ہے ۔ تاہم گذشتہ کچھ برسوں سے دیکھا جا رہا ہے کہ اقلیتی طبقات کے مذہبی تہواروں کو نشانہ بنانے کا سلسلہ شروع کردیا گیا ہے ۔ دائیں بازو کے انتہاء پسندانہ سوچ رکھنے والے عناصر مسلسل اقلیتوں کے تہواروں کو نشانہ بنا رہے ہیں۔ ان کی تقاریب میں گھس کر ہنگامہ آرائی کی جا رہی ہے ۔ تقاریب کو درہم برہم کرنے میں کوئی عار محسوس نہیں کی جا رہی ہے اور کھلے عام انتباہ اور دھمکیاں دی جا رہی ہیں کہ اس طرح کے تہوار منانے سے گریز کیا جائے اور اکثریتی طبقہ کی روایات کی پاسداری کی جائے ۔ ہندوستان کا جو دستور ہے وہ ہر مذہب کے ماننے والوںکو یہ آزادی دیتا ہے کہ وہ اپنے تہوار بھی روایتی جوش و خروش کے ساتھ منائیں اور مذہبی رسوم کی ادائیگی میں کسی طرح کی پابندی نہیں ہے ۔ دوسروں کے مذہبی جذبات کو مشتعل کئے بغیر اور انہیں ٹھیس پہونچائے بغیر اپنے مذہبی تہوار پوری آزادی کے ساتھ منائے جاسکتے ہیں۔ اسی مذہبی رواداری کی وجہ سے ہندوستان کو دنیا بھر میں پسند بھی کیا جاتا رہا ہے ۔ حالیہ برسوں میں خاص طور پر اقلیتی طبقات سے تعلق رکھنے والے تہواروں کو نشانہ بنایا جارہا ہے ۔ چاہے عیدالاضحی ہو یا پھر کرسمس ہو یا پھر کوئی اور مذہبی تہوار ہو ۔ شدت پسند اور مذہبی جنون رکھنے والے عناصر ان تقاریب کو درہم برہم کر رہے ہیں اور انہیں نشانہ بناکر اقلیتی طبقات کو اپنے تہوار منانے سے روکنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ کرسمس کے موقع پر بھی ملک کی کئی ریاستوں میں اس طرح کے واقعات پیش آئے ہیں جہاں کرسمس کی سجاوٹ کو درہم برہم کیا گیا ۔ تقاریب کا اہتمام کرنے سے روکا گیا اور ہنگامہ آرائی کرتے ہوئے توڑ پھوڑ کی گئی ۔ یہ طریقہ کار ہندوستانی روایت ہرگز نہیں ہے کیونکہ ہمارا ملک کئی مذاہب کے ماننے والوں کا گہوارہ ہے ۔
ملک میںوشوا ہندو پریشد ‘ بجرنگ دل اور اسی قبیل کی تنظیموں سے تعلق رکھنے والے افراد اقلیتوں کے تہواروں کو نشانہ بناتے ہوئے ایک طرح سے غنڈہ گردی کرنے لگے ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ ملک میں صرف ہندو تہوار منائے جائیں اور دوسرے طبقات اپنے تہوار جوش و خروش کے ساتھ منانے نہ پائیں۔ کہیں چرچس کو نشانہ بنایا جا رہا ہے تو کہیں مساجد کے وجود کوبرداشت نہیں کیا جا رہا ہے ۔ کہیں درگاہوںکو نشانہ بنایا جا رہا ہے تو کہیں دوسرے مذہبی مقامات کو نشانہ بنایا جا رہا ہے ۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ حکومت کی جانب سے بھی ان عناصر کے خلاف کوئی سخت کارروائی نہیں ہو رہی ہے جس کی وجہ سے ان تنظیموں اور ان سے وابستہ کارکنوں کے حوصلے بلند ہوتے چلے جا رہے ہیں اور وہ خود کو ماورائے قانون اتھاریٹی سمجھنے لگے ہیں۔ دستور اور ملک کے قانون کی دھجیاں اڑائی جا رہی ہیں اور من مانی انداز میں کارروائی کرتے ہوئے اقلیتوں کو خوف کا شکار کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے ۔ ان میں عدم تحفظ کا احساس پیدا کیا جا رہا ہے اور انہیں د وسرے درجہ کا شہری بنانے کی باتیں کی جا رہی ہیں۔ سارا کچھ کھلے عام کیا جا رہا ہے اور حکومتیں خاموش تماشائی بنی ہوئی ہیں۔ نفاذ قانون کی ایجنسیاں بھی اپنے فرائض کی تکمیل میں پوری طرح سے ناکام ہیں اور وہ ایسے معاملات کا نوٹ لیتے ہوئے ان کے ذمہ دار افراد کے خلاف کارروائی میں تغافل برت رہی ہیں۔ ایسے عناصر کے خلاف کارروائی کرنے کی بجائے راست یا بالواسطہ طور پر ان کو بچایا جا رہا ہے ۔یہی طریقہ کار فرقہ پرست عناصر کی حوصلہ افزائی کی سبب بن رہا ہے ۔
اس طرح کے واقعات ملک کے سکیولر تانے بانے کو متاثر کرنے لگے ہیںاور سماج میں بدامنی اور نراج کی کیفیت پیدا ہونے لگی ہے ۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ حکومتیں اس طرح کی حرکتوں کا نوٹ لیں۔ ایسے عناصر پر لگام کسنے میں کوئی کسر باقی نہ رکھی جائے ۔ محض اکثریتی طبقہ سے تعلق رکھنے کی بنیاد پر ان کی دستور و قانون کی خلاف ورزی کرنے والی حرکتوں کا سلسلہ دراز ہونے کی اجازت نہ دی جائے ۔ نفاذ قانون کی ایجنسیوں کو بھی اس طرح کے معاملات میں اپنی پیشہ ورانہ دیانت کا مظاہرہ کرنے کی ضرورت ہے ۔ ملک کے دستور کی دھجیاں اڑانے کی کسی کو بھی اجازت نہیں دی جانی چاہئے اور جو عناصر فرقہ وارانہ منافرت پھیلانے میں مصروف ہیں ان کے خلاف سخت کارروائی کی جانی چاہئے ۔ ملک کے سکیولر ڈھانچے کو برقرار رکھنے کیلئے اس طرح کے عناصر کے خلاف کارروائی ضروری ہے ۔
کلدیپ سینگر کو ضمانت
اناؤ عصمت ریزی کیس کے ملزم سابق رکن اسمبلی کلدیپ سینگر کی سزاء کو معطل کرکے اسے ضمانت منظور کردی گئی ہے ۔ دہلی ہائیکورٹ نے یہ ضمانت فراہم کی ہے ۔ اس معاملے میں سی بی آئی سپریم کورٹ سے رجوع ہوئی ہے اور دہلی ہائیکورٹ کے فیصلے کی مخالفت کی گئی ہے ۔ سی بی آئی کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ اس انتہائی سنگین نوعیت کے معاملے میں سپریم کورٹ میں موثر پیروی کرے تاکہ کلدیپ سینگر کی ضمانت کو منسوخ کیا جائے ۔ حالانکہ کلدیپ سینگر اس ضمانت کے باوجود رہا نہیں ہوگا کیونکہ وہ قتل کے ایک اور مقدمہ میں 10 برس کی سزاء کاٹ رہا ہے تاہم اس ضمانت کی منظوری سے سماج میں غلط پیام جاتا ہے ۔ اناؤ عصمت ریزی معاملہ انتہائی سنگین رہا ہے اور اس معاملے میں سارے ملک میں برہمی کی لہر پیدا ہوگئی تھی ۔ اب سینگر کو ضمانت پر بھی خواتین کی جانب سے بڑے پیمانے پر احتجاج کیا جا رہا ہے ۔ سی بی آئی کو اس معاملے میں سپریم کورٹ میں موثر پیروی کرتے ہوئے سینگر کی ضمانت منسوخ کروانے کی ضرورت ہے تاکہ خواتین میں پائی جانے والی بے چینی کو دور کیا جاسکے اور عصمت ریزی کے ملزمین کو یہ پیام دیا جاسکے کہ وہ قانون کی گرفت سے بچ نہیں سکتے ۔
