اقلیتی اقامتی اسکولوں کا بجٹ ، عوامی چندہ پر منحصر!

,

   

مذکورہ اداروں میں دینی تعلیم کی فراہمی سے متعلق حکومت کے دعووں کی قلعی کھل گئی

محمد مبشر الدین خرم
حیدرآباد۔4اکٹوبر(سیاست نیوز) حکومت تلنگانہ کی جانب سے چلائے جانے والے اقلیتی اقامتی اسکولوں کا بجٹ عوامی چندہ سے پورا کیا جائے گا یا حکومت تلنگانہ ان اقلیتی اقامتی اسکولوں میں دینی تعلیم کی فراہمی کے وعدہ کو فراموش کرتے ہوئے اپنے اقلیتی اسکولوں میں دینی تعلیم کے فروغ کی ذمہ داری ملت کے سپرد کرچکی ہے؟ حکومت تلنگانہ کی جانب سے ریاست میں تلنگانہ میں 204 اقلیتی اقامتی اسکول چلائے جارہے ہیں لیکن اب ان اسکولوں میں دینی تعلیم کے لئے عوامی چندہ کیا جانے لگا ہے ۔ حکومت تلنگانہ کے ان اداروں میں قرآن مجید‘ نورانی قاعدہ‘ جائے نماز کے علاوہ اسکولوں میں تعلیم حاصل کرنے والی طالبات کے لئے اسکارف کی فراہمی کے لئے سلامہ ایجوکیشنل اینڈ ویلفیر ٹرسٹ کی جانب سے چندہ کیا جا رہاہے جبکہ حکومت بالخصوص مشیر برائے اقلیتی امور جناب اے کے خان نے اعلان کیا تھا کہ حکومت تلنگانہ کی جانب سے چلائے جانے والے ان اسکولوں میں حکومت کروڑہا روپئے خرچ کر رہی ہے اور ان اسکولوں میں دینی تعلیم کی فراہمی کے لئے اعلی اور معیاری انتظامات کئے گئے ہیں علاوہ ازیںان اسکولو ں میں دینیات کی تعلیم کیلئے نصاب کی تیاری عمل میں لائی جا رہی ہے اوراس کے لئے ایک کمیٹی تشکیل دینے کا بھی اعلان کیا گیا تھا لیکن آج ایک بک لیٹ موصول ہوئی جس میں ان اقلیتی اقامتی اسکولوں میں دینی تعلیمی مواد کی فراہمی کیلئے ایک کروڑ 51 لاکھ 44 ہزار کا تخمینہ لگایا گیا ہے اور اس بک لیٹ میں واضح کیا گیا ہے کہ حکومت کی جانب سے ان اسکولوں میں دینی تعلیم کا کوئی نظم نہیں ہے اور نہ ہی اسکولوں میں جائے نماز اور قرآن فراہم کئے گئے ہیں۔ حکومت تلنگانہ کی جانب سے جاریہ سال مجموعی اعتبار سے بجٹ میں کٹوتی کی گئی ہے اور اس کے ساتھ اقلیتی بجٹ میں بھی کٹوتی کرنے کافیصلہ کیا گیا ہے جس کے اثرات محکمہ اقلیتی بہبود کے تحت خدمات انجام دینے والے اداروں پر بھی مرتب ہورہے ہیں جس کے نتیجہ میں سلامہ ایجوکیشنل اینڈ ویلفیر ٹرسٹ کے اقدام کو حکومت کی جانب سے تخفیف کردہ بجٹ کی پابجائی کے طور پر دیکھا جا رہاہے ۔ تلنگانہ اقلیتی اقامتی اسکول سوسائیٹی کے ذمہ دارو ںکی جانب سے کئے جانے والے دینی تعلیم کی فراہمی کے دعوؤں کی قلعی کھولنے کیلئے یہ کافی ہے

لیکن ان تعلیمی اداروں میں دینی تعلیم کی فراہمی کے لئے عوامی چندہ کی وصولی کس حد تک درست ہے اس کا جواب سوسائیٹی کے ذمہ داروں کے پاس موجود نہیں ہے۔ اقلیتی اقامتی اسکولوں کے لئے حکومت کی جانب سے سال گذشتہ 735کروڑ روپئے مختص کئے گئے تھے جن میں ایک رپورٹ کے مطابق صرف 330.75کروڑ ہی خرچ کئے گئے اور اس سال یعنی 2019-2020مالی سال کے دوران تلنگانہ اقلیتی اقامتی اسکولو ںکے لئے حکومت نے بجٹ میں کٹوتی کرتے ہوئے 405کروڑ 74لاکھ مختص کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔تلنگانہ اقلیتی اقامتی اسکولوں کے بجٹ میں حکومت کی جانب سے کی جانے والی کٹوتی کے بعد اخراجات کی پابجائی کیلئے کنٹراکٹ اساس پر خدمات انجام دینے والے ملازمین کو برطرف کئے جانے کی اطلاعات کے ساتھ اب جبکہ چندہ کی اطلاعات موصول ہورہی ہیں تو ایسا محسوس ہورہا ہے کہ حکومت کی جانب سے اقلیتوں کو ان کے اپنے اسکول چلانے کے لئے بجٹ بھی اکٹھا کرنے کی راہ فراہم کی جا رہی ہے۔ اقلیتی اقامتی اسکولو ں میں دینی تعلیم کی فراہمی اور دینی مواد کے لئے کئے جانے والا چندہ ریاستی حکومت کی جانب سے اقلیتی اسکولوں سے بے اعتنائی اور ان اسکولوں میں تعلیم حاصل کرنے والوں کو دینی تعلیم سے دور رکھنے کی کوشش کے مترادف ہے۔ ذرائع کے مطابق تلنگانہ اقلیتی اقامتی اسکولوں میںدینی مواد فراہم نہیں کیا جا رہاہے اور نہ ہی طلبہ کیلئے جائے نماز کاانتظام کیا گیا ہے طلبہ کے والدین کی جانب سے ہی قرآن اور جائے نماز وغیرہ بچوں کو دیئے جا رہے ہیں۔