اقلیتی اقامتی اسکولوں کیلئے اوقافی اراضی لیز پر دینے کی تجویز

   

پولیس عہدیدار کی نگرانی میں ٹاسک فورس ، وقف بورڈ اجلاس، محمد سلیم کی پریس کانفرنس

حیدرآباد۔29 ۔ اکٹوبر(سیاست نیوز) تلنگانہ وقف بورڈ نے اقلیتی اقامتی اسکولوں کی عمارتوں کی تعمیر کیلئے اوقافی اراضیات لیز پر دینے کا جائزہ لیا۔ 40 اوقافی اراضیات کی نشاندہی کی گئی جہاں حکومت کی گرانٹ ان ایڈ سے اقامتی اسکولوں کی تعمیر عمل میں آئے گی اور دیگر اداروں کی طرح وقف بورڈ کو مارکٹ ویالیو سے کرایہ ادا کیا جائے گا۔ اس سلسلہ میں قطعی فیصلہ ڈیولپمنٹ کمیٹی کی سفارشات کے بعد آئندہ بورڈ اجلاس میں کیا جائے گا ۔ وقف بورڈ کا اجلاس آج تقریباً 7 ماہ بعد منعقد ہوا۔ صدرنشین محمد سلیم کی صدارت میں منعقدہ اجلاس میں 37 ایجنڈہ ایٹمس پر غور کیا گیا ۔ ڈیولپمنٹ، تولیت، ایڈمنسٹریٹیو اور لیگل کمیٹیوں کے اجلاس منعقد کرنے کا فیصلہ کیا گیا اور کمیٹیوں سے بعض امور رجوع کئے گئے ہیں۔ بعد میں میڈیا کے نمائندوں سے بات چیت کرتے ہوئے صدرنشین محمد سلیم نے بتایا کہ 6 ڈیولپمنٹ سے متعلق امور کو منظوری دی گئی۔ 15 مساجد کمیٹیوں کی میعاد میں مزید دو سال کی توسیع کی گئی جن میں مسجد صحیفہ چادر گھاٹ اور مسجد بی صاحبہ پنجہ گٹہ شامل ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ ڈیولپمنٹ کمیٹی کا اجلاس 13 نومبر ، تولیت اور ایڈمنسٹریٹیو کمیٹی کا 14 نومبر کو اجلاس ہوگا ۔ وقف بورڈ کی کارکردگی میں مزید بہتری کیلئے دو ریٹائرڈ تحصیلداروں کی خدمات حاصل کی گئی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ اسٹاف کے پروموشن اور نئے اسٹاف کے تقررات کے امور ایڈمنسٹریٹیو کمیٹی سے رجوع کئے گئے۔ حکومت کو 50 ملازمین کے تقرر کی سفارش کی گئی تھی، حکومت سے احکامات ملنے تک مرحلہ وار طور پر کنٹراکٹ کی بنیاد پر 10 ، 10 ملازمین کی انٹرویوں کے ذریعہ تقرر کیا جائے گا۔ یہ تقرر خالص عارضی بنیاد پر ہوگا۔ محمد سلیم نے بتایا کہ ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ پولیس رتبہ کے عہدیدار کی قیادت میں ٹاسک فورس قائم کرنے کی تجویز ہے جس میں ایک انسپکٹر پولیس اور ایک تحصیلدار بھی ہوں گے ۔ حکومت سے ان عہدیداروں کی خدمات ڈپیوٹیشن پر حاصل کی جائیں گی ۔ ناجائز قبضوں کی صورت میں وقف بورڈ کا اسٹاف بہتر طور پر فرائض انجام دینے سے قاصر ہے ، لہذا پولیس کے اعلیٰ عہدیدار کی خدمات حاصل کرنے پر غور کیا جارہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ عہدیداروں کی ٹیم زیادہ اثر انداز ثابت ہوسکتی ہے۔ بورڈ نے اسٹانڈنگ کونسل ایم اے مجیب کی خدمات کو فوری اثر کے ساتھ ختم کرنے اور ان کے خلاف تحقیقات کا فیصلہ کیا ہے۔ اوقافی جائیدادوں کے مقدمات کی موثر پیروی نہ کرنے اور بیشتر مقدمات میں شکست کے پیش نظر یہ فیصلہ کیا گیا۔ محمد سلیم نے بتایا کہ حکومت نے اقامتی اسکولوں کے لئے چالیس مقامات پر اراضی لیز پر الاٹ کرنے کی تجویز پیش کی ہے۔ انہوں نے کہا کہ لیز پر حکومت کو اراضی الاٹ کرنے سے وقف اراضی غیر مجاز قبضوں سے بچ جائے گی اور وقف بورڈ کی آمدنی میں اضافہ ہوگا ۔ آمدنی میں اضافہ کی صورت میں وقف بورڈ مسلمانوں کیلئے مختلف فلاحی کام انجام دے سکتا ہے ۔ محمد سلیم نے بتایا کہ بورڈ کا آئندہ اجلاس 23 یا 25 نومبر کو منعقد ہوگا جس میں ڈیولپمنٹ اور آمدنی میں اضافہ سے متعلق اہم فیصلے کئے جائیں گے۔ انہوں نے بتایا کہ بیشتر مقامات پر ریونیو ریکارڈ میں وقف جائیدادوں کا ریکارڈ شامل نہیں ہے جس کے سبب لینڈ گرابرس جھوٹے کاغذات کی بنیاد پر اپنا نام پہانی اور پٹے میں شامل کرا رہے ہیں۔ وقف بورڈ کی جانب سے ہر منڈل آفس کے ریکارڈ میں وقف اراضیات کو منتخب گزٹ اور دیگر تفصیلات کے ساتھ درج کیا جائے گا تاکہ کوئی فروخت نہ کرسکے۔ انہوں نے بتایا کہ بورڈ میں مقدمات کی موثر پیروی کے سلسلہ میں کاؤنٹرس داخل کرنے کیلئے ماہرین کی کمی ہے۔ ایڈوکیٹس اور تحصیلداروں کی خدمات حاصل کرتے ہوئے لیگل سیکشن کو مستحکم بنایا جائے گا ۔ انہوں نے کہا کہ اسٹانڈنگ کونسلس کی فیس کو 4000 روپئے سے بڑھاکر 7000 کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ وقف بورڈ کے قابضین کی جانب سے سینئر وکلاء کی خدمات حاصل کی جارہی ہے ، لہذا وقف بورڈ نے بھی حسب ضرورت سینئر وکلاء کی خدمات حاصل کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ مہیشورم کی اوقافی اراضی کے معاملہ کو بورڈ کی لیگل کمیٹی سے رجوع کرنے کا فیصلہ کیا گیا کیونکہ یہ معاملہ عدالت میں زیر دوران ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ بعض ارکان نے اقامتی اسکولوں کو اراضی لیز پر دینے کی مخالفت کی۔ ڈی ایس پی رتبہ کے عہدیدار کی خدمات ڈپیوٹیشن پر حاصل کرنے کے سلسلہ میں ارکان کی رائے تھی کہ اگر عہدیداروں کی تنخواہ حکومت ادا کرتی ہے تو بورڈ کو یہ تجویز قبول کرنی چاہئے۔ بورڈ کے 12 ملازمین کی خدمات میں 6 ماہ کی توسیع کی گئی۔ اجلاس میں جن ارکان نے شرکت کی، ان میں مولانا سید اکبر نظام الدین حسینی صابری، ملک معتصم خاں ، نثار حسین حیدر آغا ، محترمہ صوفیہ بیگم ایڈوکیٹ، مرزا انوار بیگ، ایم اے وحید اور زیڈ ایچ جاوید شامل ہیں۔