اقوام متحدہ جنرل اسمبلی سے خطاب

   

کوئی چنگاری محبت کی سلگتی ہے ابھی
اس لئے اب بھی مرے دل میں دھواں ہوتا ہے
اقوام متحدہ جنرل اسمبلی سے خطاب
وزیراعظم نریندر مودی کی اقوام متحدہ سلامتی کونسل کے 740 ویں سیشن سے خطاب میں زیادہ تر توجہ دہشت گردی کے خاتمہ پر دی گئی جبکہ انہوں نے اقوام متحدہ میں اس موضوع پر بات کرنے سے گریز کرتے ہوئے ہندوستان کی ترقی و خوشحالی کے اسباب کو اجاگر کرنے کا ارادہ ظاہر کیا تھا لیکن عالمی سطح پر جو رائے قائم کی گئی ہے اس کو ہی موضوع بحث بنانے کی پالیسی پر چلتے ہوئے وزیراعظم مودی نے دہشت گردی کو اپنی تقریر کا حصہ بنایا۔ دہشت گردی پر انہوں نے گوتم بدھ کے نام کا سہارا لیا اور کہا کہ ہندوستان نے ’’یدھ‘‘ نہیں بلکہ دنیا کو ’’بدھ‘‘ دیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ دہشت گردی کے خلاف ساری دنیا کی طاقتوں کو پہلے سے زیادہ برہم اور چراغ پا ہوکر کارروائی کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ دہشت گردی انسانیت کے ماتھے پر سیاہ داغ ہے۔ مودی کی اس تقریر کے خلاف رائے ظاہر کرنے والوں نے کہا کہ وزیراعظم مودی خود اپنے ملک میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور انسانیت کے قتل کیلئے ذمہ دار ہیں۔ ان کے ہاتھ معصوم انسانوں کے خون سے رنگے ہوئے ہیں۔ کشمیر میں لاکھوں عوام کو ان کی ہی سرزمین پر محروس کر رکھا گیا ہے۔ وزیراعظم کی تقریر میں دہشت گردی کے بعد جن موضوعات کو جگہ دی گئی ان میں دیگر کئی وسیع تر مسائل کو شامل کیا گیا تھا۔ ترقی، سلامتی اور ماحولیات کی تبدیلی پر بھی انہوں نے اظہارخیال کیا لیکن عالمی سطح پر ہندوستان کے داخلی حقائق اور کشمیر کی تلخ سچائی کو پوشیدہ رکھنے کی کوشش کی گئی۔ پاکستان کے ساتھ دشمنی کے نام پر دونوں ملکوں کے عوام کے مستقبل کو تاریک کرنے والی حرکتوں نے کئی مسائل پیدا کردیئے ہیں۔ مودی حکومت کی دوسری میعاد میں کشمیر کے عوام کو راحت دینے کا عزم ظاہر کرتے ہوئے آرٹیکل 370 برخاست کرنے کا دعویٰ کیا گیا لیکن اس دعویٰ کے پس پردہ اس حقیقت کو نظرانداز کردیا گیا کہ کشمیر میں سیاحت، صنعتیں اور دست کاری کے شعبہ میں انحطاط کی وجہ سے تقریباً 2 لاکھ روزگار ختم ہوگئے ہیں اور اب کشمیر کی متوسط اور چھوٹی صنعتوں مائیکرو انٹرپرائزس کو ختم کرنے کی سازش کی جارہی ہے۔ اس سے مزید 50 ہزار کشمیری عوام بیروزگار ہوں گے۔ کشمیر کی تازہ میوہ جات کی صنعت کو 12000 کروڑ روپئے کا نقصان ہورہا ہے۔ کشمیر میں گذشتہ 30 سال میں ہزاروں احتجاجی مظاہرے، ہڑتالیں اور کرفیو کے واقعات رونما ہوئے اور اب یہاں آرٹیکل 370 کی برخاستگی کے بعد کی کیفیت پہلے سے زیادہ سنگین ہوگئی ہے۔ یہاں ہونے والی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں سے عالمی قائدین کو بے خبر رکھنے کی کوشش کی گئی اور اقوام متحدہ بھی اپنے ہی قراردادوں کو روبہ عمل لانے میں ناکام دکھائی دے رہا ہے۔ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے سالانہ خطاب میں برصغیر کے دونوں ممالک ہندوستان اور پاکستان کے قائدین اپنا اپنا نظریہ پیش کرتے ہیں لیکن ان کی تقاریر کا کوئی مثبت نتیجہ برآمد نہیں ہوتا اس مرتبہ بھی وزیراعظم پاکستان نے بھی کشمیر کے مسئلہ کو بین الاقوامی بنانے کی کوشش کی لیکن ناکام رہے اس کے باوجود انہوں نے عالمی سطح پر مسئلہ کشمیر کو اٹھانے کی کوشش کو جاری رکھنے کا اعلان کیا۔ دہشت گردی کے تعلق سے وزیراعظم نریندرمودی کے لب و لہجہ میں تلخی تو نہیں تھی لیکن انہوں نے عالمی برادری پر زور دیا کہ وہ دہشت گردی کے مسئلہ پر متحد ہوجائیں کیونکہ عالمی اتحاد میں فقدان کی وجہ سے ہی یہ مسئلہ جوں کا توں ہے۔ اقوام متحدہ کے قیام کا اصل مقصد بھی یہی تھا کہ ساری دنیا میں امن کے قیام کو یقینی بنایا جائے۔ وزیراعظم مودی نے ایک ہفتہ طویل اپنے دورہ امریکہ کے موقع پر دہشت گردی کے حوالہ سے کبھی بھی پاکستان کا نام نہیں لیا لیکن ان کا نکتہ نظر یا اشارہ پاکستان کی ہی طرف دیکھا گیا۔ کشمیر سے آرٹیکل 370 کی برخاستگی کے بعد وزیراعظم مودی کی اقوام متحدہ میں پہلی تقریر کے کئی منفی پہلو سامنے آئیں گے۔ جیسا کہ عمران خان نے وارننگ دی کہ اگر عالمی برادری نے ہندوستان پر کشمیر کی پالیسی میں تبدیلی لانے کیلئے مجبورنہیں کیا تو پھر کشمیر کی صورتحال دونوں ممالک کے درمیان نیوکلیئر جنگ شروع کرواسکتی ہے۔ اگرجنگ ہوئی تو پاکستان آخری حد تک جائے گا۔ عمران خان کا لہجہ تلخ اور بے خیالی میں بولی جانے والی تقریر کا مظہر ہے۔
کرناٹک کے ضمنی انتخابات مؤخر
کرناٹک اسمبلی میں بی جے پی کا موقف کمزور ہے۔ ارکان اسمبلی کی معمولی تائید پر ٹکی بی جے پی حکومت کو ضمنی انتخابات سے کافی توقعات ہیں لیکن باغی نااہل قرار دیئے گئے ارکان اسمبلی کے تعلق سے عدالت کے فیصلہ میں تاخیر کے بعد الیکشن کمیشن آف انڈیا نے اسمبلی کے ضمنی انتخابات کو 5 ڈسمبر تک مؤخر کردیا۔ 21 اکٹوبر کو منعقد ہونے والے ان انتخابات کی تاریخ کو آگے بڑھانے کے پیچھے بی جے پی کا سیاسی دباؤ ہونے کا واضح اشارہ اس بات سے ملتا ہیکہ سپریم کورٹ نے کرناٹک میں انتخابی عمل میں مداخلت کی ہے۔ کانگریس نے عدالت عالیہ کی اس مداخلت کو ’’دستور کی پامالی‘‘ قرار دیا ہے۔ کرناٹک میں کانگریس اور جنتادل ایس کی ایک منتخب حکومت کو منحرف ہونے والے گروپ نے بیدخل کردیا تھا۔ اب اس منحرف گروپ کو ضمنی انتخابات میں امیدوار بنانے کا مسئلہ درپیش ہے۔ اس صورتحال کو ٹالنے کیلئے بی جے پی حکومت الیکشن کمیشن کی مدد سے ضمنی انتخابات کی تاریخ مؤخر کرانے میں کامیاب ہوگئی۔ بی جے پی کے دباؤ میں آ کر ہی انتخابات کروانے اور ملتوی کرنے والے الیکشن کمیشن کو اپنے دستوری فرائض پر بھی دھیان دینے کی ضرورت ہے۔ سپریم کورٹ نے گذشتہ 70 سال میں جو قانون وضع کیا تھا اس کی رو سے وہ انتخابی عمل میں مداخلت نہیں کرے گی لیکن بی جے پی کی خاطر سپریم کورٹ نے بھی دستوری فرائض کو بالائے طاق رکھ کر کام کیا ہے تو یہ افسوسناک ہے۔ الیکشن کمیشن کو بھی اس معاملہ میں مداخلت کی ضرورت نہیں تھی لیکن اب یہاں الیکشن کمیشن کی شفافیت پر بھی شبہ پیدا کردیا گیا ہے۔ ایک دستوری ادارہ کو اس طرح سیاسی طرفداری کا مظاہرہ کرنے کی ضرورت نہیں تھی۔ جن ارکان کو سابق اسپیکر نے نااہل قرار دیا تھا ان کو اس سیاسی قربانی کا انعام دینے کی خاطر بی جے پی نے ضمنی انتخابات ملتوی کروادیئے ہیں لیکن سوال یہ ہیکہ آیا اسپیکر نے جب نااہل قرار دیئے ارکان کو موجودہ اسمبلی کی میعاد ختم ہونے تک ایوان میں داخل ہونے سے روک دیا ہے تو انہیں دوبارہ امیدوار بنا کر منتخب کروانے بی جے پی کی کوشش ایک خراب سیاسی کلچر کو فروغ دے گی۔ عوام ہی اس سیاسی کلچر کو مسترد کرنے کا اختیار رکھتے ہیں۔