’’ الفتح الرَّباَّنی ‘‘ کا تحقیقی مطالعہ

   

سید امین الدین حسینی
عصر حاضر کے انسان نے سائنسی، صنعتی اور اقتصادی وغیرہ شعبہ جات میں ترقی کی جن منازل کو چھو لیا ہے آج سے ایک صدی قبل انسان کو اس کا تصور بھی نہ تھا ، ان تمام تر ترقی کے باوجود آج کا مسلم معاشرہ بد عقیدگی ،بد عملی، گمراہی اور کھوکھلے پن کا شکار ہے۔ برق رفتار آمد و رفت اور جدید ذرائع ابلاغ کے باوجود آج ملت اسلامیہ انسانیت، ہمدردی، اخوت اور اخلاقی اقدار سے محروم ہو کر عدم مساوات اور بے راہ روی کی گہری وادیوں میں گری ہوئی ہے۔
اللہ تعالیٰ نے امت مسلمہ کی رشد و ہدایت کے لئے انبیاء کرام اور رسولان عظام کو مبعوث فرمایا۔حضور اکرم ﷺکی تشریف آوری کے ساتھ ہی باب نبوت ہمیشہ کے لئے بند ہو گیا ۔ جب بھی ملت اسلامیہ علمی، عملی، روحانی و اخلاقی اقدار کے زوال کا شکار ہوئی اور بدعات و خرافات میں ملوث ہوئی تو ایسے وقت اللہ تعالیٰ نے امت کو ایسے نفوس قدسیہ سے نوازا جن کے وجود نے صحراؤں کو گلشن بنادیا۔
اللہ رب العزت نے رشدو ہدایت ، وعظ ونصیحت کی ذمہ داری حضور اکرم ﷺ کی امت کے علماء ربانیین پر عائد کی جس پر واضح الفاظ میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان عالیشان موجود ہے : اللہ تبارک وتعالیٰ ہر صدی کے آغاز میں ایسے شخصیات کو وجود بخشتاہے جو ایک طرف احکامِ شرع کے محافظ اور قوانینِ شریعت کے پاسباں ہوتے ہیں تو دوسری طرف ملتِ اسلامیہ کو علمی ، عملی ، روحانی واخلاقی اقدار سے مزین کرتے ہیں ۔ انہیں باعظمت وحیات آفریں شخصیات میں سے ایک جامع علوم وفضائل ، منبع رشد وہدایت ، قطبِ ربانی ، محبوب ِسبحانی ، قندیلِ نورانی ،غوث ِصمدانی شیخ عبد القادر جیلانی رضی اللہ عنہ کی ذات گرامی ہے جنہیں خالق کائنات نے نمایاں مقام ومرتبہ عطا فرمایا اور ان کے وجود ، خطبات وارشادات ، مواعظ وملفوظات کو ملتِ اسلامیہ کے لئے خضر ِ راہ بنایا۔حضور غوثِ اعظم رضی اللہ عنہ کا ظہور اس وقت ہوا جب ملت اسلامیہ کسم وپرسی کا شکار تھی ، مسلمانوں کی اجتماعی قوت ، فرقہ بندی اور باہمی تشدد کے نذرہوچکی تھی ان میں بدعات وخرافات کی سیل جاری تھی ۔جہاں ایک طرف کفروشرک اور فسق و فجور کی وادی بہہ رہی تھی تو دوسری جانب مسلمانوں کو اختیار و اقتدار سے بے دخل کرنے کے لئے طاغوتی طاقتیں یکجا ہوگئیں تھیں ۔ ایسے نازک وقت میں اس مرد حق نے اس دور کا سب سے طاقتور میڈیا یعنی خطبات وارشاد کو اپنا آلہ کار بنایا جس کے ذریعہ آپ نے امت مسلمہ کے نحیف و ناتواں بدن میں نئی روح پھونک دی۔ جس پر آپ کی عظیم و محیر العقول تصنیف ’’ الفتح الرَّباَّنی ‘‘ شاہد و عادل ہے جس کا ایک ایک ورق خزاں رسیدہ چمن کے لئے ایک خوشگوار جھونکا ہے۔
یہ وہ شہکار ہے کہ زمانہ محو حیرت ہے کہ کس طرح اس مرد حق نے اس میں آفاق کو سمو لیا۔الفتح الرَّباَّنی کو ایک خاص مقام حاصل ہے جس کو غوث اعظم کے اصلاحی، دعوتی، تبلیغی و تجدیدی کارناموں میں شمار کیا جاتا ہے۔ جو در حقیقت علوم و معارف اسرار و دقائق کا منبع و بحر ذخار ہے جو سبق آموز بھی ہے اور زندگی ساز بھی، جو تزکیہء نفس بھی ہے اور تخلیہء باطل بھی، جو حقائق شریعت و طریقت کا بہترین مجموعہ بھی ہے اور دقائق حقیقت و معرفت کا اعلیٰ خزینہ بھی ،جو ملت ِاسلامیہ کے لئے خضر ِ راہ بھی ہے اور ادیانِ باطلہ کے لئے ضرب حیدری بھی۔مختصر یہ کہ اس کتاب مستطاب کا مکمل نام ’’ الفتح الرَّباَّنی والفیض الرَّحمانی ‘‘ ہے جو غوثِ اعظم رضی اللہ عنہ کے خطبات، ارشادات ، مواعظ و ملفوظات کا مجموعہ ہے۔جو عربی زبان میں ۶۷۲صفحات پر مشتمل ہے جس میں آپ کے کل ۶۲حیات آفریںخطبات موجود ہیں جن کو مجالس کے نام سے تعبیر کیا گیا۔یہ خطبات ہمہ جہتی موضوعات پر مشتمل ہیں جہاں پر حضور غوثِ اعظم رضی اللہ عنہ اپنے معرکۃ الآراء خطبات میں توحید، تقدیر پر یقین، اخلاص عمل، دنیا سے بے رغبتی توبہ اور آخرت کی تعلیم دی وہیں پر بدعات و خرافات، منکرات و ادیان باطلہ کا ردِّبلیغ فرمایا۔

 ایک جانب جہاں علماء حق و اولیاء کرام سے بغض کے انجام پر روشنی ڈالی وہیں پر علمائے سو اور ابن الوقت صوفیاء کی اچھی طرح گوشمالی کی علاوہ ازیں ایک سمت جہاں آپ رضی اللہ عنہ نے مسلمانوں کو روحانی و اخلاقی اقدار کی اصلاح کی تلقین کی وہیں پر ان کو منہیات اور معصیت کے ارتکاب سے بچنے کا درس دیا۔ ان خطبات کے مطالعہ کے بعد یہ بات واضح طور پر نمایاں ہو جائے گی کہ آپ کے یہ خطبات ملتِ اسلامیہ کے لئے خضرِ راہ ہے۔

خطباتِ غوث ِپاک ’’ الفتح الرَّباَّنی ‘‘ کی خصوصیات :
حضور غوث اعظم رضی اللہ عنہ کے خطبات کی انگنت خصوصیات ہیں جن کا احاطہ ممکن نہیں لیکن چند خصوصیات درجہ ذیل ہیں۔
۱۔ مختصر و نہایت جامع الفاظ کے ذریعہ خطبوں میں متعدد موضوعات کا احاطہ کیا گیا ۔
۲۔ ان خطبات میں فلسفیانہ موشگافی نہیں بلکہ قرآن کریم کا حکیمانہ انداز پایا جاتا ہے۔ جیسے ارشاد ربانی ہے ’’ اُدع إلٰی سبیل ربِّک بالحکمۃ ‘‘ (۳)
۳۔ موقع و محل کے مطابق آیات کریمہ واحادیث شریفہ کے ذریعہ خطبات کو مزین کیا گیا علاوہ ازین مقصد کو ذہن نشین کرنے کے لئے تمثیلات کا بھی انتخاب کیا گیا۔
۴۔ غوث ِپاک یہ خطبات ’’ إنّ من الشعر لحکمۃ وإنّ من البیان لسحر ًا ‘‘ کے مصداق ہیں۔
۵۔ آج کے اس پرفتن دور میں ان خطبات کا تحقیقی مطالعہ ملت اسلامیہ کے کے خضر راہ ہے۔
’’ الفتح الرَّباَّنی ‘‘ کا تحقیقی مطالعہ ملت ِاسلامیہ کے لئے خضرِ راہ:
خطبات غوث پاک ’’ الفتح الرَّباَّنی ‘‘ کو دیگر خطبات کے مقابل ایک نمایاں مقام حاصل ہے اللہ رب العزت نے غوثِ پاک کو جملہ علوم وفنون میں امامت کا درجہ عطا فرمایا علاوہ ازیں آپ کو فن خطابت میں وہ ملکہ عطا کیا جو کسی اور کو نہیں ۔
’’ الفتح الرَّباَّنی ‘‘ کے مطالعہ سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ آپ نہایت سادہ اور عام فہم انداز میں دین اسلام کے وہ اسرار ورموزبیان کئے جو کسی اور نے بیان نہیں کیں آپ کے خطبات افراط و تفریط سے پاک اور ’’ دریابکوزہ ‘‘ کے مصداق ہیں بالخصوص آپ نے خطبات میں قرآن کریم و احادیث شریفہ کی جو نفیس وانوکھی تشریحات کی ہیں اُن کی مثال مشکل ہی نہیں بلکہ نا ممکن ہے۔
اکتسابِ فیض کی خاطر خطبات کے چند اقتباسات پیش کرنے کی سعادت حاصل کر رہا ہوں ۔جب ہم ان خطبات کا دل و جان سے متوجہ ہوکر تحقیقی مطالعہ و جائزہ لیں گے تویہ بات واضح ہوجائے گی کہ ان خطبا ت کی اہمیت و افادیت آج بھی بدستورباقی ہے اور یہ خطبات تا قیامت ملتِ اسلامیہ کے کے خضرِ راہ ہے ۔
۱۔اخلاقی اقدار کی اصلاح :
حضور غوث اعظم رضی اللہ عنہ ’’ المجلس الثانی والستون فی التوحید ‘‘ میں ارشاد فرماتے ہیں ’’ (یاقوم ) الإسلام یبکی ویستغیث یدہ فی رأسہ من ھولاء الفجار من ھولاء الفساق ، من ھولاء أہل البدع والضلال ‘‘ إلی آخر ھذاالمجلس۔( 4 )
مذکورہ خطبہ میں غوث اعظم رضی اللہ عنہ مسلمانوں کے علمی، عملی روحانی و اخلاقی اقدار کے زوال پر دلگیر ہوتے ہوئے علاوہ ازیں ان کے سنگ دل ہونے اور احکام شرع سے روگردانی پر افسوس کرتے ہوئے فرماتے ہیں ’’ جس طرح دین اسلام کی شبیہ کوفاسق وفاجر اور بدعتی لوگوں نے بگاڑ دیاہے جس کی وجہ سے اسلام گریہ کناں ہے اور مدد کو پکا ر رہا ہے ایسے ہی مسلمانوں کی اخلاقی انحطاط کی وجہ سے اقطاع عالم میں دینِ اسلام کی شبیہ بگڑرہی ہے۔
ایسے انسانوں سے تو وہ کتابہتر ہے جس کا مالک اس کو صرف چند لقمے کھلاتا ہے باوجود یہ کہ وہ کتا اپنے مالک اور اس کے گھر بار کی حفاظت کرتا ہے ۔لیکن اے انسان تو کتنا احسان فراموش ہے کہ رب تجھ کوشکم سیر کرتا ہے باوجود اس کہ تو نہ تو رب کی منشا پوری کرتا ہے اور نہ ہی اس کی نعمتوں کا حق ادا کرتا ہے ‘‘ ۔ (5)
جس طرح غوثِ اعظم رضی اللہ عنہ نے اپنے خطبات میں فاسق و فاجراور گمراہ لوگوں کی مذمت کی اور ملت ِاسلامیہ کو خدا کے منشا و رضا کے مطابق زندگی بسر کرنے، اور اسکے حدود و قوانین کی پاسداری کرنے اور اپنے عملی و اخلاقی اقدار کی اصلاح کی تلقین فرمائی وہیں پر بے عمل علماء کی اچھی طرح خبر لی۔
۲۔وہ علم جس کے ساتھ عمل نہ ہو:
’’ المجلس السابع والأربعون ‘‘ میں ارشاد فرماتے ہیں ’’ یا من یدعی العلم لا عبرۃ بعلمک من غیر عمل ولا عبرۃ بعملک من غیر إخلاص ‘‘ إلیٰ آخرہ ۔ (۶)
مذکورہ خطبے میں غوث پاک رضی اللہ عنہ نے ایسے علماء کی اچھی طرح گو شمالی کی جو اپنے علم پر عمل نہیں کرتے اور ان کی مثال چھلکے سے دی ہے فرماتے ہیں ’’ علم چھلکا ہے اور عمل مغز،چھلکے کی حفاظت اس لئے کی جاتی ہے کہ مغزمحفوظ رہے اور مغزکی اس لئے کہ اس سے تیل نکالا جائے وہ چھلکا کس کام کا جس میں مغزہی نہ ہو ‘‘ ۔ (۷)
کس طرح واضح اور دوٹوک انداز میں غوث پاک رضی اللہ عنہ نے علماء کو ایک اصول وضابطہ بیان کر دیا کر جب تک علماء اپنے علم پر عمل پیرانہ ہونگے اس وقت ان کے پڑھنے پڑھانے سے کوئی فائدہ حاصل نہ ہوگا اور نہ ہی ملت اسلامیہ راہ راست پر آئے گی۔
جس طرح غوث پاک رضی اللہ عنہ نے اپنے خطبات میںبے عمل علماء کی سرزنش کی وہیں پر علماء حق اور اولیاء سے محبت و عقیدت کی تلقین کی اور ان سے بغض و عناد رکھنے والے کی عاقبت بیان کی۔
۳۔علماء حق اور اولیاء سے بغض کا انجام.:
’’ المجلس التاسع والثلاثون ‘‘ میں ارشاد فرماتے ہیں ’’ من تقدم کانوا یطوفون الشرق والغرب فی طلب الأولیاء والصالحین الذین ہم أطباء القلوب والدین، فاذاحصل لھم واحد منھم طلبوا منہ دواء لأدیانھم وأنتم الیوم أبغض إلیکم الفقہاء والعلماء والأولیاء الذین ھم المؤدبون والمعلمون، فلا جرم لایقع بأیدیکم الدواء ‘‘ ( ۸ )
مذکورہ بالا خطاب میں غوث پاک رضی اللہ عنہ نے کم ظرف اور عقل کے اندھوں کو سمجھایا کہ دیکھو کس طرح سابقہ زمانے کے لوگ علماء حق اور اولیاء کرام سے عقیدت و محبت کرتے تھے اوراپنے دینی ودنیاوی معاملات میں ان سے رہنمائی لیتے تھے جس کی بنا ء پر کا میابی ان کی زندگی کے ہر شعبہ میں قدم چومتی تھی ۔
بر عکس اس کے آج لوگ علماء حق اور اولیاء سے بغض وعنادرکھتے ہیں اور ان پر طعن و تشنیع کرتے ہیں ان سے اکتسابِ فیض کے بجائے ان ہی کی اصلاح کرتے ہیں نتیجہ ہوا یہ کہ ذلت ورسوائی آج ان کا مقدر بن چکی ہے ۔
خلاصہء کلام :
خطبات غوث ِاعظم ’’ الفتح الرَّباَّنی ‘‘ کے ذکر کردہ اقتباسات کے ذریعے یہ بات عیاں ہوگئی کہ اس علمی قحط الرحال اور جہالت کے دور میں ’’ الفتح الرَّباَّنی ‘‘ میںموجود تعلیمات کی اشد ضرورت ہے۔
آج علمی مغالطَوںکو خطبات ِغوثِ اعظم کی صداقت فکر چاہئے آج ابن الوقت صوفیاء کو راہ راست دکھانے کے لئے ’’ الفتح الرَّباَّنی ‘‘ کا مطالعہ در کا رہے ضرورت اس بات کی ہے کہ ان خطبات کو عام کیا جائے اور اس کو نصاب ترتیب بنایا جائے۔
آج اگر امت مسلمہ اپنے مسائل کا حل اور اقطاع عالم میں بلندی و سرخروئی چاہتی ہے تو وہ خطباتِِ غوث ِپاک میں موجودتعلیمات پر عمل پیرا ہوجائے۔ اس لئے کہ آج ماحول کی سنگینی اسی نہج پر ہے جیسے غوث ِ پاک کے دور میں تھی ،مرض وہی ہے اس لئے اُسی معالج کی ضرورت ہے اور اُسی نسخہء کیمیاء کی طلب ہے۔
جس طرح یہ خطبات ماضی میں ملتِ اسلامیہ کے لئے خضرِ راہ تھیں اسی طرح یہ خطبات آج بھی اور تا قیامت امت مسلمہ کے لئے خضرِ راہ رہیں گے۔
اور یہ خطبات معطر مضامین سے مہک رہے ہیں اور زبان حال سے یہ کہہ رہے ہیں ہے کوئی ان انمول اور نایاب موتیوں کو چنے والا؟ تو وہ آکر ان انمول موتیوں کو اپنے دامن میں سمیٹ کر اپنی دنیا و آخرت کو سنوار لے ۔

شان پیران پیر کیا کہنا
عظمت دستگیر کیا کہنا
پیر ایسا ملا نبی ویسا
فضل رب قدیر کیا کہنا (مظہر )
ورق تمام ہوا اور مدح باقی ہے
سفینہ چاہئے اس بحر بیکراں کے لئے
حوالہ جات :
۱۔ سنن ابی داؤد، حدیث نمبر ۴۲۹۳
۲۔ ماخوذ از: ur.m.wikipedia.org.
۳۔ سورئہ نحل، آیت نمبر: ۱۲۵
۴۔ ماخوذ از: ’’ الفتح الربانی والفیض الرحمانی ‘‘ ، مطبع : منشورات الجمل (ألمانیا) ، طبع اول ۲۰۰۷ ، صفحہ نمبر: ۳۹۰
۵۔ ملخص از :حوالہ ء سابقہ
۶۔ ماخوذ از: ’’ الفتح الربانی ‘‘ مطبع ، منشورات الجمل (ألمانیا) ، طبع اول: ۲۰۰۷صفحہ نمبر: ۱۹۶-
۷۔ ملخص از : فیوض غوث یزدانی ترجمہ الفتح الربانی ، مترجم : محمد ابراہیم قادری بدایونی ، مطبع : حامد اینڈ کمپنی پرنٹرز ، لاہور ،
صفحہ نمبر : ۳۳
۸۔ ماخوذ از: ’’ الفتح الربانی والفیض الر حمانی ‘‘ ، مطبع : منشورات الجمل ، طبع اول: ۲۰۰۷ ، صفحہ نمبر : ۱۶۴