’’جواہر خمسہ‘‘ میں پانچ جواہر کی تلقین کی جاتی ہے اور بتایا جاتا ہے کہ ان جواہر کی حفاظت کا اہتمام کس طرح کیا جائے۔ یہ جواہر گویا سالک کا سرمایہ ہیں، جن کی حفاظت بہرحال ضروری ہے۔ خدا نخواستہ اگر ان کی حفاظت کا کماحقہٗ اہتمام نہ کیا گیا تو ان کے چوری ہو جانے کا شدید اندیشہ موجود رہتا ہے۔ ضروری ہے کہ سب سے پہلے ان جواہر کو اچھی طرح پرکھ کر ان کی شناخت کرلی جائے، تاکہ ان کی قدر و قیمت معلوم ہو جائے اور اسی مناسبت سے ان کی حفاظت کا اہتمام کیا جاسکے۔
پہلا جوہر ’’ایمان‘‘ ہے۔ یہ اسلام کی، دین کی اور شریعت و طریقت کی روح اور بنیاد ہے۔ مؤمن کا عزیز ترین سرمایہ یہی ہے، لہذا اس کو سمجھنے سے پہلے چند باتوں کا سمجھنا ضروری ہے۔ انسان کو اللہ تعالی نے پیدا فرماکر اس کو صرف دو چیزیں عطا فرمائی ہیں، ایک جان اور دوسری مال۔ جان و مال کے علاوہ انسان کو بارگاہ خداوندی سے کوئی تیسری چیز نہیں ملی۔ انسان کو دست قدرت سے جو کچھ بھی ملا ہے، وہ بظاہر لاکھوں اور کروڑوں کی تعداد میں بے شمار چیزیں ہیں، لیکن اگر آپ ان کا تجزیہ کریں تو معلوم ہوگا کہ قدرت کی یہ بے شمار نعمتیں صرف ان ہی دو چیزوں کی فروع ہیں۔ مثلاً جسم اور جسمانی طاقتیں، سماعت، بصارت، حواس وغیرہ یہ سب جان کے فروع ہیں۔ اسی طرح روپیہ پیسہ، مال و دولت، جائداد، گھر بار، تجارت، کھیتی باڑی وغیرہ یہ سب مال کے فروع ہیں۔
جان و مال بلاتفریق مذہب و ملت کم و بیش ہر انسان کو ملے ہیں، کوئی انسان ان دو چیزوں سے تہی دامن نہیں، یہ قدرت کا فیض عام ہے، اللہ تعالی کی رحمانیت کا ظہور ہے۔ ان دو چیزوں سے نوازنے کے بعد اللہ تعالی کا انسان سے پہلا مطالبہ ’’ایمان‘‘ کا ہے کہ ’’اپنے رب پر ایمان لاؤ‘‘۔ ظاہر ہے کہ اس مطالبہ کے نتیجہ میں نوع انسانی لازماً دو گروہوں میں بٹ گئی، کچھ لوگوں نے ایمان لاکر مطالبہ پورا کردیا اور کچھ لوگوں نے یہ مطالبہ ماننے سے انکار کردیا۔ جن لوگوں نے مان لیا، وہ اصطلاحی زبان میں ’’مؤمن‘‘ کہلاتے ہیں اور جنھوں نے یہ مطالبہ مسترد کردیا، وہ اصطلاحی زبان میں ’’کافر‘‘ کہلاتے ہیں۔ چنانچہ رب العالمین کا ارشاد ہے: ’’پھر تم میں سے کوئی کافر ہے اور کوئی مؤمن‘‘۔ (سورۂ تغابن۔۲)
ایمان کے بارے میں بس اتنا ہی سمجھا جاتا ہے کہ یہ چند مابعد الطبیعاتی عقائد کے مجموعہ کا نام ہے، یعنی اللہ پر ایمان، فرشتوں پر ایمان، آسمانی کتابوں پر ایمان، رسولوں پر ایمان اور آخرت پر ایمان وغیرہ۔ نبی کے کہنے پر ان عقائد کو مان لیا جاتا ہے، لیکن ایمان کا ایک اہم پہلو یہ ہے کہ یہ ایک تعلق ہے جو بندے اور خدا کے درمیان قائم ہوتا ہے۔ فی الواقع یہ ایک معاہدہ ہے، جس کو قرآن پاک ’’بیع‘‘ سے تعبیر کرتا ہے۔ اس معاہدہ کے تحت مؤمن اپنی جان اور اپنا مال اللہ تعالی کے ہاتھ جنت کے عوض بیچ دیتا ہے۔ اس بیع کے بارے میں قرآن پاک میں ارشاد ربانی ہے: ’’اللہ نے مؤمنوں سے ان کی جانیں اور ان کے مال جنت کے عوض خرید لئے ہیں، وہ اللہ کی راہ میں لڑتے، مارتے اور مرتے ہیں۔ ان سے اللہ کے ذمہ یہ ایک پختہ وعدہ ہے، توراۃ میں، انجیل میں اور اب قرآن میں، اور اللہ سے بڑھ کر اپنے عہد کو پورا کرنے والا اور کون ہے؟ پس تم اپنے اس سودے پر خوشیاں مناؤ جو تم نے اللہ سے کیا ہے، یہ بہت بڑی کامیابی ہے‘‘۔ (سورہ توبہ۔۱۱۱)
اس تمثیل میں مجاہدین کے اجر کو انتہائی بلیغ انداز میں بیان کیا گیا ہے۔ اس تمثیل کے اجزائے ترکیبی یہ ہیں:
(۱) اس معاہدہ کو بیع و شراء (خرید و فروخت) کا عنوان دیا گیا ہے۔
(۲) جانیں اللہ تعالی کی پیدا کی ہوئی ہیں اور وہی ان کا مالک ہے۔ مال بھی اسی کا ہے، جو اس نے بندوں کو عطا فرمایا ہے، لیکن اس کے باوجود اس نے اپنے فضل و کرم سے ان دونوں چیزوں کو بندۂ مؤمن کی ملکیت قرار دے کر اس سے خرید لی ہیں۔
(۳) قیمت خریدار نے خود اتنی زیادہ لگائی ہے، جس کی کوئی حد نہیں، یعنی جنت، زمین اور سات آسمان جس کی پہنائیاں ہیں اور اس میں ایسی ایسی نعمتیں ہیں، جن کا تصور تک نہیں کیا جاسکتا۔
(۴) یہ سودا نقد نہیں ادھار ہوا ہے، یعنی قیمت دوسری زندگی میں ادا کی جائے گی۔
(۵) جان و مال کو خرید لینے کے باوجود فوری طورپر لیا نہیں جا رہا ہے، بلکہ صرف یہ کہا جا رہا ہے کہ اللہ کی راہ میں دین کی سربلندی اور اعلائے کلمۃ الحق کے لئے ان کی جب ضرورت ہو تم خود ہی پیش کردینا۔
(۶) پھر یہاں تک رعایت دے دی گئی اور کہہ دیا گیا کہ ان چیزوں کو تم اپنے ہی تصرف میں رکھو، لیکن ان کا استعمال ہماری مرضی کے مطابق کرنا، کیونکہ تم ان کے امین ہو مالک نہیں۔
درحقیقت انسان کی اپنی کوئی چیز ہے ہی نہیں جو بیچے اور کوئی چیز اللہ تعالی کی ملکیت سے خارج ہے ہی نہیں کہ وہ اس کو خریدے، اس لئے یہاں سرے سے کسی خرید و فروخت کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا، لیکن یہ بیع صرف اس لئے منعقد ہو رہی ہے کہ انسان کو اللہ تعالی نے ارادے اور اختیار کی آزادی دے رکھی ہے کہ اس کو جو کچھ دیا گیا ہے، اس میں دیکھے کہ یہ ’’امین‘‘ کی حیثیت سے تصرف کرتا ہے، یا ’’خائن‘‘ بن کر خود ساختہ مالک کی حیثیت سے تصرف کرتا ہے۔ اس بیع سے مقصود بس یہی امتحان ہے۔ پہلی صورت اللہ تعالی سے وفاداری کی ہے اور دوسری صورت اس سے غداری کی۔ ایک مؤمن اور کافر میں فرق بس یہی ہے کہ مؤمن اللہ تعالی کا وفادار ہوتا ہے اور کافر بے وفا، غدار اور باغی ہوتا ہے۔ (اقتباس)