اللہ والوں کی مجالس بلندیٔ درجات کا ذریعہ

   

حافظ صابر پاشاہ
اللہ تعالیٰ نے درجات کی بلندی کا ذریعہ ’مجالس‘ کو قرار دیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:’’اے ایمان والو! جب تم سے کہا جائے کہ (اپنی) مجلسوں میں کشادگی پیدا کرو تو کشادہ ہو جایا کرو، اللہ تمہیں کشادگی عطا فرمائے گا اور جب کہا جائے کھڑے ہوجاؤ تو تم کھڑے ہوجایاکرو، اللہ اُن لوگوں کے درجات بلند فرما دے گا جو تم میں سے ایمان لائے اور جنہیں علم سے نوازا گیا، اور اللہ اُن کاموں سے جو تم کرتے ہو خوب آگاہ ہے‘‘۔(المجادلة، ۵۸: ۱۱)
مجلس میں بیٹھنے سے درجات کی بلندی تبھی نصیب ہوگی جب بیٹھنے والے کو کوئی روحانی و اُخروی نفع حاصل ہو اور اس کے خیر میں اضافہ ہو اور جب ان مجالس سے انسان ’ایمان‘ اور ’علم‘ کے نور سے منور ہو کر نکلے۔ کیسی مجالس اور کن اوصاف کے حامل ہم نشین کا انتخاب کرنا چاہیے؟ اس سلسلے میں حضور نبی اکرم ﷺ کے ان فرامین سے رہنمائی لیتے ہیں جن میں حضور نبی اکرم ﷺ نے ایسی مجالس اور ہم نشینوں کی صفات بیان فرمائی ہیں:
حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ عرض کیا گیا: یا رسول اللہ! ہمارے بہترین ہم نشین کون ہیں؟ آپ نے فرمایا: جس کا دیکھنا تمہیں اللہ کی یاد دلا دے، جس کا بولنا تمہارے علم میں اضافہ کرے اور جس کا عمل تمہیں آخرت کی یاد دلائے۔حضور نبی اکرم ﷺ نے اس حدیث مبارک میں صالح جلیس کی صحبت کے تین ثمرات ذکر فرمائے ہیں۔ گویا ہم نشین اگر نیک، عبادت گزار، متقی، اللہ سے محبت کرنے والے، علم و عقیدۂ صحیحہ کے حامل، صدقِ نیت اور اخلاص کے پیکر ہوں تو ان کے ساتھ مل بیٹھنے سے بھی خیر نصیب ہوتی ہے، ایمان اور علم کا نور حاصل ہوتا ہے، گناہوں کی بخشش ہوتی ہے اور درجات بلند ہوتے ہیں۔
جس طرح ماحول کے اَثرات اِنسانی جسم و روح پر ہوتے ہیں اسی طرح صحبتِ صالحین اور مجالسِ علم کے اثرات قلب و روح پر ہوتے ہیں۔یہ قدرت کا نظام ہے کہ جس طرح چیزیں جسم پر اثرات مرتب کرتی ہیں، اسی طرح اشیاء اور ماحول کے اثرات قلب و روح پر بھی رونما ہوتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے عالمِ مادیات میں انسان کو پانچ حواس عطا کیے ہیں۔ ان حواسِ خمسہ سے وہ دیکھتا، چھوتا، سونگھتا، چکھتا اور سنتا ہے۔ انہی پانچ حواس کے ذریعے انسانی جسم پر اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ جب من پسند کھانے کا ذائقہ چکھتے ہیں تو ایک لطف محسوس ہوتا ہےگویا ظاہری طور پر خود کوئی عمل نہیں کیا، محض ماحول سے خوشبو کا جھونکا آیا توطبیعت تر و تازہ ہوگئی۔ حواسِ خمسہ ظاہری کی طرح باطنی حواس یعنی روح کے احساسات بھی ہیں جن پر کیفیات طاری ہوتی ہیں۔ جب کوئی خوش اِلحان قاری قرآن مجید کی آیات کی تلاوت کرتا ہے تو اس سے نہ صرف جسم پر اثرات وارد ہوتے ہیں بلکہ روح بھی معطر، منور اور سرشار ہوجاتی ہے اور نورِ ایمان میں اضافہ ہوتا ہے۔اسی طرح وضو اور غسل بھی باطنی طہارت کا ذریعہ ہیں۔ جس طرح ہم پھولوں کی خوش بو محسوس تو کرتے ہیں لیکن اسے بیان نہیں کر سکتے اسی طرح کسی اللہ کے مقرب اور صالح بندے کو دیکھنے اور اس کی مجلس میں بیٹھنے سے اسی طرح کے خوش گوار اثرات روح پر بھی مرتب ہوتے ہیں ۔