اعظم خان کو شکایت کردہ کے بیان ریکارڈ کرانے کے بعد رہاکردئے جائیں گے‘ جسٹس سدھارتھ منگل کے روز تنزین فاطمہ اور عبداللہ اعظم کی مجسٹریٹ کے احکامات کے بموجب باؤنڈس کی تکیمل کے بعد رہائی کے احکامات جاری کئے ہیں۔
دونوں چہارشنبہ کے روز جیل سے باہر ہوں گے
اعظم خان
تاہم‘ اعظم خان مذکورہ جج نے کہاکہ سنوائی کرنے والی عدالت میں شکایت کردہ کے طور بیان درج کرانے کے بعد رہا کردئے جائیں گے۔
عبداللہ کے پیدائش کے صداقت نامہ کے متعلق مبینہ دھوکہ دھڑی سے متعلق کیس میں ضمانت قبل از وقت گرفتاری کی درخواست کورام پور کی عدالت کی جانب سے مسترد کئے جانے کے بعد فبروری میں مذکورہ تینوں نے خودسپردگی اختیار کی تھی۔
پھر پولیس نے کہاکہ اعظم خان جو رام پور لوک سبھا کی نمائندگی کرتے ہیں کے خلاف 80دیگر مقدمات ہیں
عدالت کی ہدایت
مذکورہ عدالت نے منگل کے روز اس بات کی بھی ہدایت دی ہے کہ یہ تینوں درخواست گذار گواہوں کے ساتھ کسی قسم کی چھیڑ چھاڑ نہ کریں اور نہ ہی تحقیقات اور سنوائی کے دوران اپنا بیان بدلنے کے لئے ان پر کوئی دباؤ نہ ڈالیں۔
انہوں نے یہ بھی استفسار کیاکہ وہ سنوائی کے دوران کسی بھی عذر کے بغیر تعاون برتیں۔مذکورہ عدالت نے کہاکہ ”ضمانت پر رہا ہونے کے بعد ان درخواست گذاروں کو چاہئے کہ وہ نہ تو کسی مجرمانہ سرگرمی میں ملوث ہوں یاکسی جرم میں شامل ہوں“۔
بھارتیہ جنتا پارٹی کے ایک ممبر آکاش سکسینہ نے شکایت درج کرائی ہے کہ اعظم خان اور ان کی بیوی نے دو پیدائش کے صداقت نامہ الگ الگ مقامات سے اجرائی عمل میں لائی ہے‘
ایک کی تاریخ28.01.2012نگر پالیکا پریشدرام پور سے جبکہ دوسرا 21.04.2015کو نگر نگم لکھنو سے اپنے بیٹے کا جاری کروایاتھا۔
پیدائش کا صداقت نامہ
پہلا پیدائش کاصداقت نامہ01.01.1993کی تاریخ پیدائش کے ساتھ جو جاری کیاتھا اس کا استعمال پاسپورٹ بنانے وغیرہ کے لئے کیاگیاہے۔
اور اس کا غیرملکی سفر میں غلط استعمال ہو اہے۔ دوسرا پیدائش کا صداقت نامہ جس میں تاریخ پیدائش 30.09.1990ہے کا”غلط استعمال“
سرکاری دستاویزات میں کیاگیاہے تاکہ ریاستی اسمبلی کا الیکشن لڑیں اور جواہر یونیورسٹی کے مختلف صداقتوں کے لئے بھی اس کا استعمال کیاگیاہے۔
ضمانت جاری کرتے ہوئے عدالت نے مانا کہ عبداللہ نے نگر نگم لکھنو میں اپنے پیدائش کی تاریخ کو تبدیل کرنے کے لئے کوئی حلف نامہ نہیں دیاہے“اور یہ کام اس کے والدین نے کیاہے۔
عدالت نے کہاکہ”لہذا وہ فوری طور پر رہا ہونے کا حقدار ہے“۔عدالت کا ماننا ہے کہ”تنزین فاطمہ اس بات کی مستحق ہیں نے انہیں سی آر پی سی کی دفعہ 437(1)کے فواہد ایک عورت ہونے کی حیثیت سے دئے جائیں اور ضمانت پر رہا کیاجائے“۔
عدالت نے مزیدکہاکہ ”محمد اعظم خان شکایت کردہ کے طور پربیان درج کرانے کے بعد ہی ضمانت پر رہا کیاجائے گا“۔
عدالت نے مانا ہے کہ مذکورہ درخواست گذاروں کی مجرمانہ تاریخ ہے مگر ان میں سے کسی بھی کیس میں عدالت نے انہیں مجرم قرارنہیں دیاہے اور ان کا ریکارڈ صاف ستھرا ہے۔