پیڑ کے سائے میں تم ٹھہرے رہو گے کب تک
دھوپ میں چل کے مقدر کو بدلنا ہوگا
قائد اپوزیشن لوک سبھا راہول گاندھی نے آج ایک پریس کانفرنس کرتے ہوئے اپنے طور پر الیکشن فراڈ اور ووٹوں کی چوری کا ثبوت پیش کیا ہے ۔ راہول گاندھی اور کانگریس کے علاوہ دوسری جماعتوں کے قائدین بھی لگاتار یہ کہتے رہے ہیں کہ بی جے پی نے الیکشن کمیشن کو اپنے تابع کرتے ہوئے ووٹر لسٹ میں الٹ پھیر کیا ہے ۔ ہزاروں نہیں بلکہ لاکھوں ووٹ فہرست میں غیر قانونی طریقوں سے شامل کرتے ہوئے انتخابات میں دھاندلیاں کی جا رہی ہیں اور انتخابی نتائج پر اثر انداز ہوا جا رہا ہے ۔ راہول گاندھی نے آج ایک پریس کانفرنس کرتے ہوئے تمام تفصیلات کو پیش کرنے کی کوشش کی ہے ۔ انہوں نے ایک اسمبلی اور ایک پارلیمانی حلقہ کا تذکرہ کرتے ہوئے یہ حقائق پیش کئے کہ کس طرح سے ووٹر لسٹ میں دھاندلی کی جا رہی ہے اور فراڈ کیا جا رہا ہے ۔ راہول گاندھی کا الزام تھا کہ الیکشن کمیشن کی جانب سے بی جے پی سے ساز باز کرتے ہوئے اسے فائدہ پہونچانے کی کوشش کی جا رہی ہے اور اس کی سہولت کے مطابق انتخابات کے شیڈول تیار کئے جا رہے ہیں۔ راہول گاندھی کا دعوی تھا کہ بی جے پی کو عوامی تائید حاصل نہیں ہو رہی ہے اور کانگریس کانٹے کی ٹکر دے رہی ہے تاہم الیکشن کمیشن بی جے پی کے ساتھ مل کر اسے فائدہ پہونچانے کے اقدامات کر رہا ہے ۔ انہوں نے الیکشن کمیشن پر فہرست رائے دہندگان فراہم کرنے سے انکار کا الزام عائد کیا اور کہا کہ کمیشن کی جانب سے 100 دن میں سارا ریکارڈ تلف کرنے کی بات کی جا رہی ہے اور اسی سے شکوک و شبہات کو تقویت ملتی ہے ۔ آج کے ترقی یافتہ دور میں ایک سی ڈی میں برسوں تک ریکارڈ محفوظ رکھا جاسکتا ہے اس کے باوجود کمیشن انہیں تلف کرتے ہوئے اپنی چوری کو چھپانے کی کوشش کر رہا ہے ۔ راہول گاندھی نے دعوی کیا کہ ایک کمرے کے گھر میں درجنوں ووٹرس درج کئے جا رہے ہیں جبکہ ان کا کوئی وجود ہی نہیں ہے ۔ اس کے علاوہ ایک ہی نام اور ایک ہی تصویر کے ووٹر آئی ڈی کارڈ ملک کی مختلف ریاستوں میں پائے گئے ہیں۔ یہ دھاندلی اور چوری کے مترادف ہی ہے اور کمیشن کوئی جواب نہیں دے رہا ہے ۔
دلچسپ اور اہم بات یہ ہے کہ آج جب راہول گاندھی نے باضابطہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے الزام عائد کیا اور اپنے طور پر ثبوت و شواہد پیش کئے تو الیکشن کمیشن نے تادم تحریر کوئی رد عمل جاری نہیں کیا ۔ فطری بات ہے کہ کمیشن تفصیلی جائزہ لینے کے بعد اپنا رد عمل جاری کرے گا تاہم بی جے پی فوری طور الیکشن کمیشن کے دفاع کیلئے میدان میں آگئی اور اس نے کہا کہ راہول گاندھی کے دعوے بے بنیاد ہیں اور بوگس ہیں ۔ اگر الیکشن کمیشن اس طرح کا دعوی کرتا اور ردعمل ظاہر کرتا تو بات سمجھ میں بھی آتی کیونکہ اس سارے عمل کا تعلق راست الیکشن کمیشن سے ہے اور راہول گاندھی نے الیکشن کمیشن ہی کو مورد الزام ٹہرایا تھا ۔ تاہم بی جے پی راہول گاندھی کے دعووں کو بے بنیاد قرار دیتے ہوئے مسترد کررہی ہے ۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ بی جے پی کو کس طرح سے علم ہے کہ یہ دعوے بے بنیاد اور بوگس ہیں ؟ ۔ بی جے پی کے پاس اس بات کے کیادستاویزی ثبوت موجود ہیں جن کی بنیاد پر وہ راہول گاندھی کے دعووں کو مسترد کر رہی ہے ۔ بی جے پی کی اسی جلد بازی اور استرداد کے نتیجہ میں راہول گاندھی کے ان الزامات کو تقویت حاصل ہوتی ہے جن میں انہوں نے کہا کہ الیکشن کمیشن بی جے پی سے ساز باز کرتے ہوئے کام کر رہا ہے اور ملک میں جمہوری عمل کو کمزور کیا جا رہا ہے ۔ راہول گاندھی نے سابق الیکشن کمشنران کو راست مورد الزام ٹہراتے ہوئے انہیں ملک میں جمہوریت کو کھوکھلا کرنے کا ذمہ دار قرار دیا ہے ۔ انہو ں نے یہ الزام کچھ دبے الفاظ میں عائد نہیں کئے ۔
ملک کے ایک ذمہ دار لیڈر کی جانب سے اگر اس طرح کا دعوی کیا جا رہا ہے اور ثبوت پیش کرنے کی بات کی جا رہی ہے تو الیکشن کمیشن کو اس کا نوٹ لینے کی ضرورت ہے ۔ اس بات کا جواب دینا چاہئے کہ ووٹر لسٹ میں کس طرح سے دھاندلیاں کی گئی ہیں اور کمیشن کے علم میں یہ بات کیوں نہیں لائی گئی ۔ الیکشن کمیشن صرف الزامات کو مسترد کرتے ہوئے بری الذمہ نہیں ہوسکتا ۔ جس طرح بہار میں تیجسوی یادو کے ای پی آئی سی کارڈ کو پیش کرتے ہوئے بات کی گئی تھی اسی طرح راہول گاندھی کے بتائے گئے پتے پر فہرست میں در ج ووٹرس کو پیش کرتے ہوئے کمیشن کو اپنے موقف کی وضاحت کرنے کی ضرورت ہے ۔