الیکشن کمیشن آف انڈیا کی ذمہ داریاں

   

Ferty9 Clinic

الیکشن کمیشن آف انڈیا کے تعلق سے سپریم کورٹ کا احساس غور طلب ہے۔ حکمراں طاقت کے پٹھو بن کر جب کوئی دستوری ادارہ من مانی کرتا ہے تو اس پر ہر گوشے سے انگلیاں اٹھیں گی۔ سپریم کورٹ نے کہا کہ الیکشن کمیشن کی آزادی پر جمہوریت میں سمجھوتہ نہیں کیا جاسکتا اور ریاستی الیکشن کمیشن کی زائد ذمہ داری کسی سرکاری آفیسر کو دینا بھی مضحکہ خیز بات ہے۔ اگر کوئی دستوری ادارہ تمسخر اڑانے والی حرکت کرے تو اس پر توجہ دینی چاہئے۔ سپریم کورٹ نے ایک واقعہ کے حوالے سے اپنا احساس ظاہر کیا کہ ریاستی الیکشن کمیشن کو زائد چارج دیتے ہوئے کسی سرکاری ملازم کو طاقتور بنانا یا اختیارات دینا دستور کا تمسخر ہے۔ حال ہی میں مغربی بنگال کی حکمراں پارٹی ترنمول کانگریس نے الیکشن کمیشن کے رول پر تنقید کی تھی۔ اسی طرح کئی ریاستوں میں بعض سیاسی گوشوں سے الیکشن کمیشن کی کارکردگی پر سوال اٹھائے جارہے ہیں۔ سپریم کورٹ نے اپنے احکام میں کہا کہ گوا الیکشن کمیشن کو 10 دن کے اندر پنچایت انتخابات کے لئے اعلامیہ جاری کرنا ہوگا اور 30 اپریل تک انتخابی عمل کو بھی مکمل کرلینا ہوگا۔ سپریم کورٹ کی بنچ نے جسٹس روہنٹی ۔۔۔۔۔ نریمن کی زیرقیادت ریاستی الیکشن کمشنرس کو ایک آزاد اختیارات کے حامل آزاد قرار دیا اور یہ کہ کوئی بھی ریاست کسی ایسے فرد کا تقرر عمل میں نہیں لاسکتی جو پہلے ہی حکومت کا کوئی دوسرا عہدہ رکھتا ہے۔ سپریم کورٹ بنچ نے ایک ایسے سسٹم کی طرف نشاندہی کی ہے جو ایک سرکاری ملازم خود دوسرے سرکاری ملازم کے تقرر کے احکام جاری کررہا ہے۔ جب کوئی حکومت کا ملازم ہوتا ہے تو وہ ایک سرکاری ذمہ داری پوری کرتا ہے اگر اس عہدیدار کو گوا میں الیکشن کمیشن کی زائد ذمہ داری دی جائے تو یہ دستور کا مذاق اڑانے کے مترادف ہے کیونکہ اس سرکاری آفیسر نے گوا میں پنچایت انتخابات کروانے پر ہائیکورٹ کے فیصلہ کو نظرانداز کردیا تھا۔ گوا ہائیکورٹ کی بنچ نے یکم ؍ مارچ کو حکم جاری کرتے ہوئے وزارت اربن ڈیولپمنٹ کے جاری رکدہ اعلامیہ کو کالعدم قرار دیا تھا۔ اسی طرح الیکشن کمیشن کا رول دیگر ریاستوں میں بھی اتنا اہم ہے جتنا کسی ایک ریاست یا مرکز کے تحت ہوتا ہے۔ بعض اوقات سیاسی پارٹیاں بھی الیکشن کمیشن کو ایک دستوری ادارہ نہیں سمجھتے اور اس کے خلاف من مانی توہین آمیز بیان بازی کرتے ہیں۔ مغربی بنگال کی ترنمول کانگریس کی جانب سے الیکشن کمیشن کو لکھے گئے شکایت نامہ پر شدید ردعمل ظاہر کرتے ہوئے الیکشن کمیشن نے کہا کہ یہ شکایت دستور کے بنیادی ڈھانچہ کو کمزور کرنے کی کوشش ہے۔ شکایت کرنا ہر ایک کا حق ہے۔ سیاسی پارٹیوں کو الیکشن کمیشن اور دیگر سیاسی امور کی نگرانی کرنے والے اداروں سے شکایت تو ہوئی ہے لیکن جب کوئی حد سے زیادہ آگے بڑھ کر تنقید کرتا ہے یا سخت الفاظ کا استعمال کرتا ہے تو یہ دستوری ادارہ کے بنیادی اصولوں کے مغائر ہوتا ہے۔ الیکشن کمیشن نے ممتابنرجی کی ریاست میں لا اینڈ آرڈر کا مسئلہ اٹھایا تھا کیونکہ نندی گرام میں ممتابنرجی پر ہونے والا حملہ ریاستی نظم و نسق کا حملہ ہے۔ الیکشن کمیشن کو دی گئی یادداشت مںی ترنمول کانگریس نے جو کچھ کہا اس کے حوالہ سے یہ سمجھا جارہا ہیکہ ممتابنرجی پر کیا گیا حملہ ایک سازش تھا۔ اس لئے اس حملہ کی ذمہ داری الیکشن کمیشن کو قبول کرنی چاہئے کیونکہ الیکشن کمیشن نے ہی ریاستی پولیس سربراہ کو ہٹادینے کا حکم دیا تھا۔ ترنمول کانگریس کا الزام ہیکہ الیکشن کمیشن نے مرکز کی بی جے پی حکومت کی ایماء پر مغربی بنگال کے پولیس آفیسر کا تبادلہ کروایا جس کے بعد ان پر حملہ ہوا۔ بہرحال مغربی بنگال یا ملک کی کسی بھی بات میں اسمبلی انتخابات ہوتے ہیں تو اس پر لا اینڈ آرڈر کا مسئلہ نازک ہوتا ہے۔ آنے والے پانچ ریاستوں کے اسمبلی انتخابات خاص کر آسام اور مغربی بنگال میں صورتحال نازک ہوگی ایسے میں الیکشن کمیشن کو اپنی دستوری ذمہ داری کسی سیاسی آقا کے دباؤ میں آ کر نہیں کرنی چاہئے بلکہ خالص فرض شناسی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اسمبلی انتخابات کو آزادانہ اور منصفانہ طور پر منعقد کرنا چاہئے۔ ملک کے موجودہ سیاسی نظام نے عوام سے ان کی خوشیاں چھینی ہیں۔ سیاسی پارٹیاں بھی نشانہ بنائی جارہی ہیں۔ لہٰذا جمہوریت کا تقاضہ یہی ہیکہ الیکشن کمیشن اپنے جمہوری اصولوں کو روبہ عمل لانے میں کوئی کوتاہی نہ کرے اور سیاسی آقاؤں کے تابع ہوکر کوئی ایسا غلط فیصلہ نہ کرے جس سے دستوری ڈھانچہ کو نقصان پہنچ جائے۔
آزادی کا امریت مہوتسو
وزیراعظم نریندر مودی نے ملک کی آزادی کی 75 ویں سالگرہ کے موقع پر 75 ہفتے کے فیسٹیول آزادی کا امر مہوتسو کا افتتاح کیا۔ یہ اتسو ایک ایسے وقت منایا جارہا ہے جب سارا ملک مودی حکومت کی معاشی پالیسیوں کی خرابیوں کا شکار ہوچکا ہے۔ بیرونی ملک بعض تجزیہ کاروں کی رپورٹ میں بتایا گیا ہیکہ ۔۔۔۔۔۔۔۔ کی معیشت بہت پیچھے چلی گئی ہے۔ یہ حکومت عوام کو گمراہ کرنے کے لئے ایسی پالیسیاں بنانے کا اعلان کرتی ہے جس پر عمل آوری کا پتہ نہیں ہوتا۔ جو حکمراں بدعنوان ہوتے ہیں وہ ایسے میگا پراجکٹ لے کر آتے ہیں یا عوام کو مذہب کے معاملے میں الجھا کر رکھتے ہیں جن کی عوام کو ضرورت نہیں ہوتی لیکن ان میں خرابیاں زیادہ ہوتی ہیں۔ رشوت کے واقعات عام ہوتے ہیں۔ ان بدعنوانیوں کے باعث ملک مقروض ہوجاتا ہے۔ اس کی قیمت مہنگائی کے ذریعہ عوام ادا کرتے ہیں جیسا کہ پٹرولیم اشیاء کی قیمتوں کے ذریعہ عوام موجودہ حکومت کی خرابیوں کی قیمت چکا رہے ہیں۔ بدعنوان عناصر ناجائز پیسے سے میڈیا ہاؤز کو غلام بنالیتے ہیں اور دوسرے دستوری اداروں کو خریدتے اور استعمال کرتے ہیں۔ اس کی وجہ سے ہندوستانی معاشرہ بری طرح بکھرتا جارہا ہے۔ ایسے میں اگر حکمراں طبقہ 75 ویں سالگرہ کا انعقاد عمل میں لاکر جشن منارہا ہے تو اسے ہندوستان کی تہذیبی جڑوں کو دیکھنے کی ضرورت ہے۔ مہاتما گاندھی نے عدم تشدد کی اپنی غیرمتزلزل عہد بندی پر عمل کرتے ہوئے ہندوستان کو آزادی سے ہمکنار کیا تھا۔ اب اس آزادی کے حوالے سے حکمراں طبقہ فرقہ وارانہ منافرت پھیلانے والے واقعات کو ہوا دے رہا ہے۔ حکومت آج جس آزادی کا لطف اٹھارہی ہے یہ بھی سمجھنا ضروری ہیکہ آزادی کے حصول کیلئے ملک ہزاروں حوصلہ مند افراد خواتین نے رول دستہ کھڑے ہوکر کامیاب ہوئے تھے۔