شکستہ دل میں میرے کون آیا
یہ کیا آہٹ سی ہے ٹوٹے مکاں میں
ملک میں انتخابی عمل اور مہم پورے زور و شور سے جاری ہے ۔ ملک میں دو مراحل میں ووٹ ڈالے جاچکے ہیں اور مابقی پانچ مراحل کیلئے انتخابی عمل جاری ہے ۔ تیسرے اور چوتھے مرحلہ کیلئے انتخابی مہم نے شدت اختیار کرلی ہے ۔ آئندہ مراحل کیلئے بھی سیاسی سرگرمیاں عروج پر پہونچ چکی ہیں۔ ایسے میں الیکشن کمیشن کی سارے انتخابی عمل پر نظر رہتی ہے ۔ الیکشن کمیشن پر ملک کی اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے جانبداری کے الزامات عائد کئے جا رہے ہیں۔ حالیہ عرصہ میں یہ شکایات بڑھ گئی ہیںاور اپوزیشن کا الزام ہے کہ کمیشن کی جانب سے بی جے پی کی انتخابی خلاف ورزیوں کو یکسر نظرا نداز کیا جا رہا ہے اور دیگر جماعتوں کو نوٹس جاری کرتے ہوئے ان کی انتخابی مہم پر اثر انداز ہونے کی کوشش کی جا رہی ہے مہاراشٹرا میں شیوسینا ادھو ٹھاکرے کو الیکشن کمیشن سے نوٹس جاری کرتے ہوئے اپنی انتخابی مہم کے مواد سے لفظ ہندو اور جئے بھوانی حذف کرنے کو کہا گیا ۔ شیوسینا نے اس کا جواب دیتے ہوئے ان الفاظ کو حذف کرنے سے انکار کردیا اور کمیشن کو مکتوب روانہ کرتے ہوئے بی جے پی کی جانب سے مذہب کے نام پر ووٹ مانگے جانے سے واقف کروایا ۔ شیوسینا نے اپنے مکتوب میں کمیشن سے کہا ہے کہ وہ پہلے بی جے پی کو ایسا کرنے سے روکے اور اگر ایسا نہیں کیا جاتا ہے تو یہ واضح کردے کہ آیا مختلف جماعتوں کیلئے قوانین بھی مختلف تو نہیں بنائے گئے ہیں ؟ ۔ شیوسینا کے مکتوب پر الیکشن کمیشن نے ابھی تک کوئی جواب نہیں دیا ہے اور نہ ہی کوئی کارروائی کی گئی ہے ۔ اسی طرح اب عام آدمی پارٹی کو الیکشن کمیشن نے اپنے انتخابی تشہیر کے گیت کے الفاظ تبدیل کرنے کو کہا ہے اور کہا کہ اس کے ذریعہ تشہیری قوانین ( کیبل ٹی ) کی خلاف ورزی ہوتی ہے ۔ عام آدمی پارٹی کا بھی کہنا ہے کہ بی جے پی کی جانب سے بھی کئی انتخابی خلاف ورزیاں ہو رہی ہیں لیکن الیکشن کمیشن ان کے خلاف کارروائی کرنے کی بجائے اپوزیشن کو نشانہ بنانے میں مصروف ہے ۔ کمیشن پر جانبداری کے الزامات عائد کئے جارہے ہیں۔ صرف یہ دو معاملات ہی نہیں ہے جن کی بنیاد پر کمیشن پر تنقیدیں ہو رہی ہیں۔
ملک کی مختلف ریاستوں میں علاقائی جماعتوں کی جانب سے بھی بارہا الیکشن کمیشن کے اقدامات پر تنقیدیں ہو رہی ہیں۔ اپوزیشن جماعتوں کا الزام ہے کہ الیکشن کمیشن بھی بی جے پی کے اشاروں پر کام کرتے ہوئے اپوزیشن جماعتوں کو نشانہ بنا رہا ہے اور اس طرح سے جمہوری عمل کو خطرہ لاحق ہوگیا ہے ۔ کئی جماعتوں کا کہنا ہے کہ انہوں نے الیکشن کمیشن کو بی جے پی کی جانب سے انتخابی خلاف ورزیوں سے متعلق شکایات بھی درج کروائی ہیں اس کے باوجود اس کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی جا رہی ہے اور نہ ہی کسی طرح کی نوٹس جاری کی جا رہی ہے ۔ خود وزیر اعظم کی جانب سے راجستھان میں کی گئی تقریر کو اشتعال انگیز قرار دیتے ہوئے بھی کمیشن سے شکایت درج کروائی گئی ہے ۔ کمیشن نے اس کا نوٹ لیا ہے تاہم ابھی تک اس پر بھی کوئی فیصلہ یا اقدام نہیں کیا گیا ہے ۔ یہ تاثر بھی عام ہے کہ انتخابی عمل کے دوران جو کچھ بھی شکایات درج کروائی جاتی ہیں ان پر الیکشن کمیشن کی جانب سے کسی طرح کی کارروائی کرنے میں اتنا وقت برباد کردیا جاتا ہے کہ اس وقت تک خلاف ورزی کرنے والے اپنے مقاصد کی تکمیل میں کامیاب ہوجاتے ہیں اور پھر ان کے خلاف کسی طرح کی کارروائی کی بھی جائے تو اس کا کوئی فائدہ نہیں ہوتا ۔ بسا اوقات کارروائی کی ہی نہیں جاتی اور خلاف ورزی کرنے والے پورے دھڑلے سے اپنے مفادات کی تکمیل میں کامیاب ہوجاتے ہیں۔ اس طرح شکایت کرنا ہی فضول ہو جاتا ہے ۔
الیکشن کمیشن ایک خود مختار ادارہ ہے ۔ ملک کی جمہوریت کا استحکام اسی ادارہ کی کارکردگی پر منحصر ہوتا ہے ۔ الیکشن کمیشن جیسے ادارے کو خود پر عائد ہونے والے الزامات پر خاموشی اختیار کرنے کی بجائے اپنی کارروائیوں اور اقدامات کے ذریعہ جواب دینے کی ضرورت ہوتی ہے ۔ پوری ذمہ داری اور غیرجانبداری کے ساتھ اس ادارہ کو کام کرنا چاہئے تاکہ اس پر الزامات عائد کرنے کا کسی کو موقع نہ مل پائے اور انتخابی عمل پربھی سوال پیدا نہ کیا جاسکے ۔ اپوزیشن ہو یا برسر اقتدار جماعت ہو سبھی کی شکایات اگر واجبی اور درست ہوں تو کمیشن کو ان پر فوری حرکت میں آتے ہوئے کارروائی کرنے کی ضرورت ہے ۔