جس طرح بہار میں جاری فہرست رائے دہندگان پر نظرثانی کے عمل پر اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے تشویش کا اظہار کرتے ہوئے اس کی مخالفت کی جا رہی ہے اس تناظر میں سپریم کورٹ نے بھی ایک ریمارک کرتے ہوئے ایک طرح سے الیکشن کمیشن کے منشاء پر سوال اٹھایا ہے ۔ سپریم کورٹ نے حالانکہ اس نظرثانی کو روکنے سے گریز کیا ہے تاہم کہا کہ اس کام کیلئے جو وقت منتخب کیا گیا ہے اس کی وجہ سے کئی مسائل پیدا ہوتے ہیں۔ سپریم کورٹ کا کہنا تھا کہ اگر اس وقت فہرست رائے دہندگان پرنظرثانی کے عمل سے کئی ووٹرس کے اپنے حق رائے دہی سے محروم ہونے کے اندیشے رہتے ہیں۔ اگر کسی کا نام حذف ہوجائے اور کمیشن کی جانب سے قطعی فہرست رائے دہندگان کی اشاعت کردی جائے تو پھر متاثرہ شخص کو شکایت یا اعتراض کا کوئی موقع نہیں رہتا ۔ اس کے علاوہ سپریم کورٹ نے مزید تبصرہ کیا کہ الیکشن کمیشن کی جانب سے شہریت کی جانچ کے کام پر توجہ دینا مناسب نہیں ہے کیونکہ یہ کام وزارت داخلہ کی ذمہ داریوں میں شمار ہوتا ہے ۔ سپریم کورٹ نے جوریمارکس کئے ہیں وہ اپوزیشن کی جانب سے اٹھائے گئے نکات کوہی واضح کرتے ہیںکیونکہ اپوزیشن کا الزام تھا کہ عین بہار اسمبلی انتخابات سے قبل اس طرح کا عمل شروع کرنے سے کئی رائے دہندوں کے نام فہرست رائے دہندگان سے حذف ہونے کے اندیشے لاحق ہوگئے ہیں۔ اس کے علاوہ ووٹر کے اندراج کیلئے والدین کے برتھ سرٹیفیکٹ کا لزوم بھی عائد کیا جا رہا تھا کہ جبکہ بہار جیسی پسماندہ اور پچھڑی ہوئی ریاست میں معمر افراد کے پاس برتھ سرٹیفیکٹ کا ہونا ممکن نہیں ہے ۔ الیکشن کمیشن پرا لزامات عائد کئے جار ہے تھے کہ اس طرح کے دستاویزات کے ذریعہ کمیشن ووٹر کے اندراج کی بجائے شہریت کی جانچ پر توجہ دے رہا ہے اور یہ عمل در اصل پچھلے دروازے سے این آر سی پر عمل کرنے کی کوشش ہے ۔ دلچسپی کی بات یہ تھی کہ ہر سرکاری کام کیلئے لازمی کردئے گئے آدھار کارڈ کو شہریت کے ثبوت کے طور پر تسلیم نہیں کیا جا رہا تھا اور نہ ہی ووٹر لسٹ میں نام کے اندراج کیلئے آدھار کارڈ کو قبول کیا جا رہا تھا ۔
یہ ایک مشکوک عمل تھا جس پر کئی گوشوں کی جانب سے تشویش ظاہر کی گئی ہے ۔ آج سپریم کورٹ نے الیکشن کمیشن کو ہدایت دی کہ وہ ووٹر لسٹ میں ناموں کے اندراج کیلئے آدھار کارڈ ‘ راشن کارڈ وغیرہ کو قبول کرنے پر غور کرے ۔ اس طرح جو دستاویزات تمام تر سرکاری کاموں کیلئے لازمی ہیں ان کو ووٹر لسٹ میں ناموں کے اندراج کیلئے قبول نہ کرنے کے فیصلے کو پسند نہیں کیا گیا ہے ۔ آج سپریم کورٹ کی جانب سے جو ریمارکس اور تبصرے کئے گئے ہیں وہ الیکشن کمیشن کیلئے نوشتہ دیوار سے کم نہیں کہے جاسکتے ۔ الیکشن کمیشن کا حالیہ عرصہ میں جو امیج بنا ہے وہ سارے ملک کے سامنے عیاںہے ۔ کمیشن پر مرکزی حکومت کے اشاروں پر کام کرنے اور اس کے مفادات کی تکمیل کیلئے کام کرنے کے الزامات عائد ہوئے ہیں۔ کئی مواقع پر اپوزیشن کی جانب سے کمیشن سے سوال کئے گئے لیکن کمیشن نے ان سوالات نہ جواب دینا ضروری سمجھا اور نہ ہی کوئی اطمینان بخش وضاحت کی گئی ہے ۔ یہ درست ہے کہ کمیشن ایک خود مختار ادارہ ہے لیکن اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہوسکتا کہ کمیشن کسی کے سامنے جوابدہ نہیں ہے ۔ خاص طور پر ملک کے عوام کے سامنے ہر کوئی جوابدہ ہیںکیونکہ فہرست رائے دہندگان کا مسئلہ ملک کی جمہوریت سے تعلق رکھتا ہے اور جمہوری عمل کی اہمیت کو گھٹانے کی کوششوں کو قبول نہیں کیا جاسکتا ۔ فہرست رائے دہندگان پر نظرثانی کا عمل ایسے وقت میں کیا جانا چاہئے جب کوئی انتخابات نہ ہونے ہوں تاکہ اعتراضات اور شکایات کی موثر یکسوئی ہوسکے ۔
آج سپریم کورٹ کے ریمارکس کے بعد اپوزیشن کی جانب سے کمیشن پر کی جانے والی تنقیدوں کو بے بنیاد نہیں کہا جاسکتا ۔ کمیشن کو کسی کے اشاروں پر یا کسی کے مفادات کی تکمیل کیلئے کام کرنے کی بجائے اپنی قانونی اور دستوری ذمہ داریوں کو قانونی اور دستوری پیرائے میں کام کرنے کی ضرورت ہے ۔ عوام کا اطمینان حاصل کرنا اس کیلئے ضروری ہے ۔ جمہوری عمل کے جو حصے دار ہیں ان کو اعتماد میں لینے کی بھی ضرورت ہوتی ہے ۔ کمیشن کو اپنی کارروائیوں اور فیصلوں پر نظرثانی کرتے ہوئے اس عمل کو آگے بڑھانا چاہئے اور اس بات کو یقینی بنانا چاہئے کہ جمہوری عمل کی اہمیت اور اس کی افادیت پر کوئی سوال پیدا ہونے نہ پائے ۔