الیکشن کمیشن پر راہول گاندھی کے سوالات

   

Ferty9 Clinic

غم مجھے دیتے ہو اوروں کی خوشی کے واسطے
کیوں برے بنتے ہو تم ناحق کسی کے واسطے
لوک سبھا میں آج یس آئی کے مسئلہ پر مباحث کا آغاز ہو ۔ حکومت کی جانب سے آج مباحث سے تفاق کیا گیا تھا جس پر ایوان میں مبحث شروع ہوئے ۔ ساری بحث کے دوران قائد پوزیشن راہول گاندھی نے حکومت کو نشانہ بناتے ہوئے تین سوالات کئے ہیں اور اس پر حکومت سے جواب طلب کیا ہے ۔ اس کے علاوہ راہول گاندھی نے چار مطالبت بھی حکومت کے سامنے پیش کئے ہیں اور یہ دعوی کیا کہ ملک میں ووٹ چوری کا سلسلہ جاری ہے ۔ راہول گاندھی کا دعوی تھا کہ ووٹ چوری ہی سب سے بڑی ملک سے غداری ہے ۔ راہول گاندھی کی انتخابی شکستیں اپنی جگہ ہیں لیکن یہ حقیقت ہے کہ وہ ملک میں قائد اپوزیشن کے ایک ذمہ دار اور دستوری عہدہ پر فائز ہیں ۔ حکومت سے وہ جو سوال پوچھ رہے ہیں حکومت کو ان کا جواب دینا چاہئے اور جو مطالبات راہول گاندھی نے ایوان میں پیش کئے ہیں ان پر بھی حکومت کو غور کرنے کی ضرورت ہے ۔ راہول گاندھی نے جو سوال اٹھائے ہیں وہ حقیقی معنوں میں ملک کے عوام کی تشویش کا باعث بنے ہوئے ہیں۔ ایسا نہیں ہے کہ ان سوالات کو سیاسی فائدہ حاصل کرنے کیلئے اٹھایا جا رہا ہو اور ان کی کوئی اہمیت نہ ہو۔ یہ سوال انتہائی اہمیت کے حامل ہیں اور یہ ملک کی جمہوریت اور اس کی ساکھ سے متعلق ہیں اور حکومت کو ان کا جواب دینے کی ضرورت ہے ۔ راہول گاندھی نے حکومت سے سوال کیا کہ اس نے چیف الیکشن کمشنر کے تقرر کیلئے پیانل میں تبدیلی کیوں کی ۔ اس پیانل میں وزیر اعظم ‘ قائد اپوزیشن اور سپریم کورٹ کے چیف جسٹس ہوا کرتے تھے ۔ اب یہ فارمولا بدل گیا ہے اور وزیر اعظم اور قائد اپوزیشن کے ساتھ ملک کے وزیر داخلہ کو شامل کرکے چیف جسٹس کو خارج کردیا گیا ہے ۔ اس پر سوال پیدا ہونے فطری بات ہے اور حکومت کا فیصلہ شکوک پیدا کرتا ہے ۔ دوسرا سوال قائد اپوزیشن کا یہ تھا کہ الیکشن کمشنران کو ان کے قدامات پر مکمل استثنی کیوں دیا گیا ہے ؟ ۔ مرکز نے یہ واضخ کردیا ہے کہ حکومت نے قانون میں تبدیلی کرتے ہوئے اس بات کو یقینی بنایا ہے کہ الیکشن کمشنر اپنے عہدہ پر رہتے ہوئے کچھ بھی کرتے ہیں تو ان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی جاسکتی ۔
اگر الیکشن کمشنران عہدہ پر رہتے ہوئے کوئی غیر قانونی کام بھی کرتے ہیں اور قوانین کی دھجیاں اڑاتے ہیں تب بھی انہیں جوابدہ نہیں بنایا گیا ہے ۔ یہاں بھی شکوک پیدا ہوتے ہیں اور ان کا بھی حکومت کو جواب دینا چاہئے ۔ ایسا استثنی پہلے کبھی کسی الیکشن کمشنر کو نہیں دیا گیا تھا ۔ ایسے وقت میں جبکہ یہ الزامات تقویت پا رہے ہیں کہ الیکشن کمشنر بی جے پی کی مدد کیلئے کام کر رہا ہے راہول گاندھی کا یہ سوال اہم ہے اور حکومت کی ذمہ داری ہے کہ اس کا جواب دے ۔ راہول گاندھی ک اتیسرا سوال بھی اہمیت کا حامل تھا کہ انتخابی عمل کی سی سی ٹی وی ریکارڈنگ کو 45 دن بعد حذف کرنے کا قانون کیوں بنایا گیا ۔ سی سی کیمرے کی ریکارڈنگ کو حذف کرنے کی ضرورت ہی کیوں پیش آ رہی ہے ۔ راہول گاندھی کا کہنا تھا کہ انتخابی عمل کی چوری کیلئے ایسا کیا گیا ہے ۔ راہول گاندھی نے جو تینوں سوال اٹھائے ہیں وہ تینوں ہی اہمیت کے حامل ہیں ۔ ملک کی جمہوریت کی صحت اس سے مربوط ہے اور حکومت کو ان تینوں ہی سوالات کے اطمینان بخش جوابات دینے کی ضرورت ہے ۔ حکومت اپنے طور پر من مانی فیصلے کرتے ہوئے قدیم روایات اور طریقہ کار کو تبدیل کر رہی ہے اور اس کا واحد مقصد اپنے سیاسی فائدہ کو یقینی بنانا ہے اور انتخابی عمل کی ساکھ جو متاثر ہو رہی ہے اس سے حکومت کو کوئی سروکار نہیں رہ گیا ہے ۔ حکومت محض اپنے اقتدار کو برقرار رکھنا چاہتی ہے اور اس کیلئے قوانین میں تبدیلی بلکہ قوانین سے کھلواڑ کرنے سے بھی بالکل گریز نہیں کر رہی ہے ۔
راہول گاندھی نے حکومت سے چار مطالبات کئے ہیں کہ سیاسی جماعتوں کو انتخابات سے ایک ماہ قبل ہی ڈیجیٹل ووٹر لسٹ دی جائے ۔ ‘ سی سی کیمروں کے فوٹیج کو حذف نہ کیا جائے ۔ اپوزیشن کو ووٹنگ مشینوں کی ہئیت ترکیبی سے وقف کروایا جائے کیونکہ یسا ب تک نہیں کیا گیا ہے ۔ اس کے علاوہ الیکشن کمشنر کو کسی بھی عمل کیلئے جوابدہ نہ بنانے کے قانون کو تبدیل کیا جائے ۔ حکومت گر جمہوری عمل کی صحت کو برقرار رکھنے اور اس کی ساکھ کو متاثر ہونے سے بچانے کیلئے سنجیدہ ہے تو اس کو ان تمام مطالبات کا جائزہ لینا چاہئے اور ان کی تکمیل کی جانی چاہئے ۔ اکثریت کے زعم میں کام کرنے سے حکومت کو گریز کرنے کی ضرورت ہے ۔