الیکشن کمیشن کی سرزنش بھی بے اثر

   

شہرت کی بھوک ہم کو کہاں لیکے آگئی
ہم محترم ہوئے بھی تو کردار بیچ کر
ملک میں آخری مرحلہ کی انتخابی مہم چل رہی ہے ۔ ہر گوشے سے یہ کوشش کی گئی ہے کہ زیادہ سے زیادہ رائے دہندوں تک رسائی حاصل کرتے ہوئے ان کی تائید و حمایت اور ان کے ووٹ حاصل کئے جاسکیں۔ سیاسی جماعتوں نے اپنے انداز میں انتخابی مہم چلاتے ہوئے اپنے انتخابی امکانات بہتر بنانے کی کوشش کی تھی ۔ تاہم انتخابی عمل کے دوران فرقہ واریت اور مذہبی عصبیت کا کھل کر مظاہرہ کیا گیا ۔ سماج کے اہم طبقات کے مابین دوریاں پیدا کی گئیں۔ ایک طبقہ کو دوسرے سے مرعوب کرنے اور خوفزدہ کرنے سے بھی گریز نہیں کیا گیا ۔ عوامی حلقوں میں اس طرح کی انتخابی مہم پر بے چینی بھی محسوس کی گئی ۔ کئی گوشوںنے اس رائے کا بھی اظہار کیا تھا کہ اس طرح کی انتخابی مہم کو روکا جانا چاہئے اور بہتر اور مثبت مسائل پر بات ہونی چاہئے ۔ عوامی مسائل اور ان کو درپیش چیلنجس پر اظہار خیال کرتے ہوئے سبھی کو اپنے اپنے موقف کا اظہار کرنا چاہئے ۔ تاہم ساری کوششیں بے سود ثابت ہوئیں۔ ایک سے زائد مرتبہ الیکشن کمیشن سے شکایات بھی کی گئیں۔ الیکشن کمیشن کے تعلق سے بھی عام تاثر یہی پیدا ہونے لگا ہے کہ کمیشن نے اپنے اختیارات کا پوری طرح استعمال نہیں کیا اور کئی معاملات میں خاموشی اختیار کرتے ہوئے سیاسی جماعتوں اور قائدین کی جانب سے کی جانے والی خلاف ورزیوں کو مزید شدت سے آگے بڑھانے کا موقع فراہم کیا ہے ۔ آخری مرحلہ کے آغاز میں الیکشن کمیشن نے کانگریس اور بی جے پی دونوں ہی جماعتوں کی ایک طرح سے سرزنش کی تھی اور کہا تھا کہ انتخابی عمل کو متاثرکرنے کی کسی کو بھی اجازت نہیں دی جاسکتی ۔ ملک کی دو بڑی سیاسی جماعتیں ایسا کرنے کی مرتکب ہو رہی ہیں لیکن انہیں اس سے گریز کرنا چاہئے ۔ الیکشن کمیشن نے اس معاملے میں بھی صرف اپنی رائے ظاہر کی تھی اور کسی کو کسی حکم کا پابند بنانے کیلئے کوئی اقدامات نہیں کئے گئے تھے ۔ یہ امید کی جا رہی تھی کہ الیکشن کمیشن کی جانب سے معمولی ہی صحیح سرزنش کے بعد کم ازکم آخری مرحلہ کی انتخابی مہم میں پرانی روش کو تبدیل کیا جائیگا اور منفی مہم چلانے کی بجائے مثبت انداز اختیار کیا جائیگا ۔
یہ تمام امیدیں بھی بیکار ہی ثابت ہوتی نظر آ رہی ہیں۔ الیکشن کمیشن کی رائے کو خاطر میں لانے ایسا لگتا ہے کہ بی جے پی اور اس کے قائدین تیار نہیںہے۔ وزیر اعظم نریندر مودی نے آخری مرحلہ کی انتخابی مہم میں بھی بالواسطہ انداز میں مذہبی کارڈ ہی کھیلنے کو ترجیح دی ہے ۔ ان کا کہنا تھا کہ کانگریس یکساں سیول کوڈ کی مخالف ہے اور وہ پرسنل لا کا سہارا لیتے ہوئے ملک میں شرعی قوانین نافذ کرنا چاہتی ہے ۔ یہ الزام بھی اسی نوعیت کا ہے جس نوعیت کے الزامات وزیر اعظم کانگریس پر عائد کرتے ہوئے مذہبی جذبات کو بھڑکانے اور مشتعل کرنے کی کوشش کرتے رہے ہیں۔ انہوں نے کہیں جہادیوں کا ذکر کیا تو کہیں زیادہ بچے پیدا کرنے پر تبصرہ کیا ۔ کبھی بالواسطہ طور پر مسلمانوں کو درانداز کہا تو کبھی کچھ اور کہنے سے گریز نہیں کیا ۔ ان ساری تقاریر اور الزامات کا واحد مقصد ملک کے عوام میں مذہبی جذبات کو مشتعل کرنا ہی تھا تاکہ ان کا اور بی جے پی کا سیاسی فائدہ ہوسکے اور مسلسل تیسری معیاد کیلئے اقتدار حاصل کیا جاسکے ۔ اقتدار کی جدوجہد کرنا ہر ایک کا حق ہے لیکن ملک میں سماجی تانے بانے متاثر کرتے ہوئے سیاسی فائدہ حاصل کرنے کی کوشش منفی سوچ کی عکاسی کرتی ہے ۔ اب بھی یکساں سیول کوڈ کی مخالفت اور شرعی قوانین کے نفاذ کے منصوبہ کا الزام بھی اسی کوشش کا حصہ ہے ۔ اس کے ذریعہ بھی ملک کی اکثریتی برادری میں بے چینی کی کیفیت پیدا کرنے کی کوشش کی گئی ہے ۔ یکساںسیول کوڈ کی ملک کی کئی جماعتیں مخالفت کرتی ہیں۔
کانگریس کو تنقید کا نشانہ بنانا وزیر اعظم کا حق ہے ۔ انتخابی عمل کا حصہ ہے لیکن اس کے ذریعہ بھی مسلمانوں کو نشانہ پر لانا اور سماج میں بے چینی کی کیفیت پید کرنے کی کوشش کرنا افسوسناک امر ہے ۔ آج تک کسی نے بھی ملک میں شرعی قوانین نافذ کرنے کی بات نہیں کی ہے اور نہ ہی اس تعلق سے کسی کا کوئی تبصرہ ہے ۔ اس طرح کی بیان بازی کرتے ہوئے اکثریتی برادری کے مذہبی جذبات کو مشتعل کرنے کی کوشش کی گئی ہے جبکہ یہ حقیقت ہے کہ ہندوستان میں دستور اور قانون موجود ہے اور ہر ہندوستانی شہری چاہے وہ کسی بھی مذہب کا ماننے والا ہو دستور اور قانون کی پابندی ہی کرتا ہے اور کرتا رہے گا ۔