الیکشن کمیشن کی غیر جانبداری مشکوک

   

Ferty9 Clinic

خود اپنی حسرتوں کا جو نقشہ نظر میں ہے
دیکھا نہ جاسکا نگہہ یار کی طرف
ملک میں قومی سطح پر یا کسی بھی ریاست میں جب انتخابی عمل ہوتا ہے تو سیاسی جماعتوں یا ان کے قائدین کی جانب سے انتخابی قوانین یا ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزیوں کے واقعات پیش آتے رہتے ہیں۔ مخالفین کی جانب سے ایسے واقعات کی کمیشن سے شکایت بھی کی جاتی ہے اور کمیشن اپنی جانب سے درکار کارروائی بھی انجام دیتا ہے تاہم حالیہ عرصہ میں دیکھا گیا ہے کہ کچھ واقعات نے کمیشن کی غیر جانبداری پر ہی سوال پیدا کردئے ہیں۔ الیکشن کمیشن ایک انتہائی اہمیت کا حامل دستوری ادارہ ہے اور اس کی ساکھ پر کوئی آنچ نہیں آنی چاہئے ۔ سیاسی جماعتوں کو بھی کمیشن پر غیر درست الزامات عائد کرنے سے گریز کرنا چاہئے تاہم جو واقعات پیش آئے ہیں ان پر اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے کی جانے والی تنقیدوں کو بے بنیاد ہرگز نہیں کہا جاسکتا ۔ آسام میں رائے دہی کے بعد الیکٹرانک ووٹنگ مشین بی جے پی رکن اسمبلی اور امیدوار کی گاڑی سے دستیاب ہوتا ہے ۔ ایک ریاستی وزیر کی جانب سے مخالفین کو دھمکی دئے جانے پر کی جانے والی کارروائی میں اچانک نرمی اختیار کرلی جاتی ہے ۔ دوسرے وزیر کی جانب سے صحافیوں کو ٹانگ توڑدینے اور ختم کردینے کی دھمکی دئے جانے کے باوجود کوئی کارروائی نہیں کی جاتی ۔ ایسے ہی دوسرے کئی واقعات پیش آئے ہیں جن پر کمیشن نے ایسا لگتا ہے کہ مناسب کارروائی نہیں کی ہے ۔ الیکٹرانک ووٹنگ مشین کی بی جے پی امیدوار کی گاڑی سے دستیابی انتہائی سنگین مسئلہ ہے ۔ اسی طرح وزراء کی جانب سے دھمکی آمیز رویہ اختیار کرنا اور کمیشن کی جانب سے ان سے نرمی برتنا یا صرف نظر کردینا بھی سنگین مسائل ہی ہیں۔ ان واقعات نے کمیشن کی ساکھ کو داو پر لگا دیا ہے ۔ الیکشن کمیشن ہندوستان میں انتخابات کا ذمہ دار ہوتا ہے ۔ یہی انتخابات ہوتے ہیں جن کے ذریعہ ملک میں یا ملک کی تمام ریاستوں میں عوام کے ووٹوں سے حکومتوں کا انتخاب عمل میں آتا ہے لیکن اگر کمیشن کا رول ہی مشکوک ہوجائے یا اس کی ساکھ متاثر ہوجائے تو یہ کوئی معمولی بات نہیں ہوسکتی ۔ ایسے واقعات پر کمیشن کی خاموشی بھی درست نہیںکہی جاسکتی ۔ کمیشن کو جواب دینے کی ضرورت ہے ۔
ماضی میں بھی ایسا ہوا ہے جب کمیشن کی جانب سے انتخابات کے شیڈول کے اعلان سے قبل ہی بی جے پی قائدین کے سوشیل میڈیا اکاونٹس پر انتخابات کی تواریخ اور شیڈول کا مبینہ طور پر اعلان کردیا گیا ہو۔ ایسے میں اپوزیشن کے یہ الزامات بالکل بے بنیاد نہیں ہوسکتے کہ کمیشن برسر اقتدار پارٹی کے اثر میں اور اس کے اشاروں پر کام کر رہا ہے ۔ جس طرح سے مختلف ریاستوں میں ہونے والے اسمبلی انتخابات کے مراحل طئے کئے جارہے ہیں ان میں بھی یکسانیت نہیں پائی جاتی ۔ کسی ریاست میں 200 سے زائد اسمبلی حلقوں کیلئے ایک ہی مرحلے میں ووٹ ڈالنے کی گنجائش رکھی جا رہی ہے جبکہ کئی اور ریاستوں میں جہاں اس سے کم حلقے ہیں کئی مراحل پر مشتمل شیڈول جاری کیا جا رہا ہے ۔ اپوزیشن جماعتوں کو اس پر بھی اعتراض ہے ۔ الیکشن کمیشن کو یقینی طور پر حکومت سے مشاورت کے ساتھ کام کرنا چاہئے لیکن اسے اپوزیشن جماعتوں کو بھی اور دوسرے دعویداروں کو بھی اعتماد میں لینے کی ضرورت ہوتی ہے تاکہ اس کی ساکھ پر کوئی آنچ نہ آنے پائے ۔ اپوزیشن اور دوسرے دعویداروں کے اعتراضات اور موقف کو بھی ذۃن نشین رکھتے ہوئے اقدامات کرنے کی ضرورت ہوتی ہے جو فی الحال نہیں ہو رہا ہے ۔ جو واقعات حالیہ وقتوں میں پیش آئے ہیں وہ ایسے ہیں جن کی ماضی میں کوئی مثال نہیں ملتی ۔ یہ بالکل پہلی مرتبہ پیش آنے والے واقعات ہیں اور ان کی روک تھام اور اپوزیشن کی شکایات کا ازالہ بھی کیا جانا چاہئے ۔
جہاں تک الیکشن کمیشن کی ساکھ کا سوال ہے یہ انتہائی اہمیت کی حامل ہے ۔ کمیشن پر جو بھاری ذمہ داری ملک کے جمہوری عمل کو آگے بڑھانے کی ہے اس پر کسی کو بھی شکوک و شبہات کی گنجائش فراہم نہیں کی جانی چاہئے ۔ ایک انتہائی ذمہ دار اور دستوری ادارہ کو ہی سب سے پہلے اپنی ساکھ بچانے کیلئے اقدامات کرنے چاہئیں۔ عوام کا اعتماد اس ادارہ پر بہت اہمیت کا حامل ہے ۔ کمیشن کی جانب سے اس بات کی کوشش کی جانی چاہئے کہ مستقبل میں اس کے تعلق سے کسی کو شبہات نہ رہیں اور نہ ہی اس کی ساکھ متاثر ہونے پائے ۔