سب کچھ لٹا کے ہوش میں آئے تو کیا کیا
دن میں اگر چراغ جلائے تو کیا کیا
الیکشن کمیشن کی کارروائی
الیکشن کمیشن ایسا لگتا ہے کہ بڑی دیر کے بعد جاگا ہے اور وہ بھی مختلف گوشوں سے جگانے کی کوششوں کے بعد اس نے قدرے جنبش کی ہے ۔ جب سے ملک میں انتخابات کا عمل شروع ہوا ہے اس وقت سے مختلف گوشوں سے انتخابی ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزیوں کا ایک لامتناہی سلسلہ سا شروع ہوگیا ہے ۔ کئی گوشوں سے انتخابی ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزیاں ایک سے زائد مرتبہ ہوئی ہیں اورا س تعلق سے الیکشن کمیشن کی توجہ بھی مبذول کروائی گئی تھی ۔ ایسا لگ رہا تھا کہ کمیشن کی جانب سے ان شکایات پر کوئی جامع اور ٹھوس کارروائی کرنے کی بجائے محض ضابطہ کی تکمیل کی کوشش کی جا رہی ہے اور کچھ نہیں ۔ حالیہ دنوں میں جیسے جیسے انتخابی مہم نے شدت اختیار کی ہے اور آئندہ مراحل کی رائے دہی کا وقت قریب آتا جا رہا ہے یہ خلاف ورزیاں مزید شدت اختیار کرتی جا رہی تھیں۔ خاص طور پر بی جے پی کے قائدین کی جانب سے اشتعال انگیز بیان بازیاں ‘ رائے دہندوں کو دھمکانے اور ذات پات کی تفریق کی کوششوں میں شدت پیدا ہوگئی تھی ۔ مرکزی وزیر منیکا گاندھی نے اپنے حلقہ میں مسلم رائے دہندوں کو انتخابات کے بعد کی ضروریات کا حوالہ دیتے ہوئے دھمکانے کی کوشش کی تھی ۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر انتخابات کے بعد کوئی کام نکلوانا ہے تو انہیں ووٹ دینا پڑیگا ۔ اسی طرح چیف منسٹر اترپردیش آدتیہ ناتھ ہمیشہ کی طرح اپنی چرب زبانی کی وجہ سے سرخیوں میں آگئے تھے ۔ ان کا کہنا تھا کہ جہاں ایس پی ۔ بی ایس پی اتحاد کے پاس علی ہے ان بی جے پی کے پاس بجرنگ بلی ہے ۔ یہ مذہبی خطوط پر رائے دہندوں کو تقسیم کرنے کی کوشش تھی ۔ اس کے جواب میں بی ایس پی کی سربراہ مایاوتی نے بھی اپنا رد عمل ظاہر کیا اور انہوں نے بھی علی اور بجرنگ بلی کا حوالہ دیا اور کہا تھا کہ یہ دونوں بی ایس پی کے ساتھ ہیں اور ہنومان دلت تھے ۔ سماجوادی پارٹی کے لیڈر اعظم خان نے جیہ پردا کے خلاف ریمارک کردیا ۔ بی جے پی کے دوسرے امیدوار اور قائدین کی جانب سے الگ اشتعال انگیزیاں کی جار ہی تھیں۔ حد تو یہ تھی کہ خود وزیر اعظم نریندر مودی اور بی جے پی کے صدر امیت شاہ بھی اپنی تقاریر میں ایسے بیانات دے رہے تھے ۔
مودی اور امیت شاہ کے بھی بیانات کے ذریعہ سماج میں نفاق اور بے چینی کی فضاء پیدا ہو رہی تھی ۔ اپوزیشن جماعتوں اور دیگر کئی گوشوں کی جانب سے مسلسل الیکشن کمیشن کی توجہ اس طرح کے بیانات پر مبذول کروائی جا رہی تھی ۔ الیکشن کمیشن نے ابتدائی ایام میں ملک کی مسلح افواج کے کارناموں کا انتخابی تقاریر میں استحصال نہ کرنے کی ہدایات جاری کی تھیں اس کے باوجود مودی ‘ امیت شاہ اور دوسرے قائدین مسلسل ایسا کرتے جا رہے تھے ۔ اس صورتحال میں ایسا لگ رہا تھا کہ الیکشن کمیشن محض ضابطہ کی تکمیل کیلئے کام کر رہا ہے اور اس کی ہدایات کا کسی کو پاس و لحاظ بھی نہیں رہ گیا ہے ۔ مہاراشٹرا میں شیوسینا نے تو دھڑلے سے کمیشن سے کہہ دیا ہے کہ اس کے قوانین کی اسے کوئی پرواہ نہیں ہے ۔ وہ جو چاہے کریگی اور کمیشن جو کچھ کرسکتا ہے کرلے ۔ یہ سیاسی جماعتوں کی ہٹ دھرمی اور انتخابات جیتنے کی ہوس ہے ۔ یہ جمہوریت کے ساتھ کھلا مذاق ہے ۔ الیکشن کمیشن کی مسلسل خاموشی کی وجہ سے سیاسی جماعتوںاور قائدین کے حوصلے بلند ہوتے جا رہے ہیں۔ وہ قوانین کو خاطر میں لانے کو تیار نہیں ہیں اور قوانین کی دھجیاں اڑانے میں کوئی عار محسوس نہیں کر رہے ہیں۔ سپریم کورٹ نے بھی کل الیکشن کمیشن کی جانب سے مسلسل خاموشی اختیار کئے جانے پر تنقید کی تھی اور یہ پیام دیا گیا تھا کہ کمیشن کو قوانین کی پابندی کو یقینی بنانے کیلئے اپنے اختیارات کا استعمال کرنا چاہئے ۔
الیکشن کمیشن نے بالآخر حرکت میں آتے ہوئے کچھ کارروائی کرنے کی کوشش کی ہے ۔ اس نے چند قائدین کے انتخابی مہم میں حصہ لینے پر دو تا تین دن کی پابندیاں عائد کی ہیں اور یہ سیاسی قائدین کیلئے ایک پیام ہے ۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ الیکشن کمیشن اپنے اختیارات کا مزید سختی سے استعمال کرے اورقوانین کی سنگین خلاف ورزی کرنے والے امیدواروں کی بلا لحاظ پارٹی وابستگی امیدواری ہی کو کالعدم کردیا جائے ۔ جب تک کمیشن اس طرح کی سخت کارروائیوں کیلئے پہل نہیں کریگا اس وقت تک سیاسی جماعتوں اور قائدین کی جانب سے بے ڈھنگی روش اور سماج میں نفاق پیدا کرنے کی حرکتوں میں کمی نہیں آئے گی ۔ کمیشن کو جمہوریت کے استحکام اور اس کی بقا ء کیلئے اپنی ذمہ داریوں کی تکمیل کرنی چاہئے ۔