امامت اور عمامہ

   

سوال : کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ امام صاحب کو بوقت ِنماز عمامہ کا اہتمام کرنا چاہئے یا نہیں۔ شرعاً اس بارے میں کیا حکم ہے ؟
جواب : نماز کی ادائیگی کے وقت زینت کا اہتمام یعنی شرعی وضع قطع و ہیئت پسندیدہ امر ہے ۔حضرت نبی کریم ﷺاور آپ کے اصحاب کرام و تابعین عظام اور صالحین امت کا یہی معمولی رہا ہے ۔ اس اہتمام زینت میں عمامہ بھی شامل ہے، بوقت نماز عمامہ کا اہتمام خواہ مقتدی ہو کہ امام کئی گنا اجر و ثواب کا موجب و باعث فضیلت ہے۔ دیلمی نے اپنی سند میں یہ روایت نقل کی ہے کہ عمامہ کے ساتھ ادا کی گئی نماز اس کے بغیر ادا کی گئی، نماز سے پچیس گنا زیادہ ثواب رکھتی ہے۔ علی ہذا نماز جمعہ کا ثواب اسکے ساتھ ستر جمعہ کی فضیلت رکھتا ہے ۔ نیز جمعہ کے دن فرشتہ نماز ادا کرنے والوں کیلئے غروب آفتاب تک دعا کرتے ہیں۔ صلاۃ بعمامۃ تعدل بخمس و عشرین صلاۃ و جمعۃ بعمامۃ تعدل سبعین جمعۃ و فیہ ان الملائکۃ تشھدون الجمعۃ معتمین و یصلون علی اھل العمائم حتی تغیب الشمس ۔ مقتدی کے بالمقابل امام صاحب پر زائد ذمہ داری ہے کیونکہ شرائط امامت میں جو اوصاف شرعاً ملحوظ ہیں وہ مقتدی میں نہیں اس لئے امام صاحب کو چاہئے کہ وہ عمامہ کا ضرور اہتمام کریں۔ فقط واﷲأعلم
حافظ صابر پاشاہ
بیشک باطل کو مٹنا ہی ہے
کتنے ایسے مسلمان ہیں جو صفر کے مہینے کو منحوس سمجھتے ہیں ۔ خصوصاً صفر کی تیرہ (۱۳)تاریخ کو تیرہ تیزی کا نام دے کر بہت ساری خرافات کرتے ہیں۔ اس مہینے میں کوئی اچھا کام انجام نہیں دیا جاتا ۔ اور بہت سارے لوگ چہارشنبہ کو منحوس سمجھتے ہیں۔ چہارشنبہ کے دن اگر کوئی مرجائے تو سارے خاندان کے لئے مصیبت کا پیغام تصور کیا جاتا ہے اور بہت سی ایسی باتیں ہیں جن کا تعلق دور جہالت سے ہے۔ حضور پاک علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ان کی سخت تردید فرمائی اور ان بدعقیدگیوں سے مسلمانوں کو بچنے کی تاکید فرماتے ہوئے ارشاد فرمایا ’’اسلام میں نہ چھوت ہے اور نہ بیماری متعدی ہے اور نہ صفر کا مہینہ منحوس ہے ‘‘ ۔ اللہ کے نبی ﷺ نے ایک اور مقام پر ارشاد فرمایا : ’’چھوت کوئی چیز نہیں ، بدفالی بھی کوئی چیز نہیں ، اُلو کی نحوست کوئی چیز نہیں اور صفر کی نحوست بھی کوئی چیز نہیں ۔ اﷲ کے نبی ﷺ نے حجۃ الوداع کے موقع پر ایک خطبہ ارشاد فرمایا: ’’اے لوگو ! تم پر ضروری ہے کہ میری آج کی باتیں ان لوگوں تک پہنچادو جو یہاں حاضر نہیں ہیں ۔ میں جہالت کے جتنے رسوم تھے ، ان سب کو اپنے قدموں تلے روندتا ہوں اور تمہارے درمیان دو چیزیں ایک قرآن کریم دوسری میری سنت چھوڑے جارہا ہوں جب تک ان دونوں کو تھامے رہوگے کبھی گمراہ نہ ہوں گے ۔ تم سب ایک خدا کے بندے اور ایک باپ کے بیٹے ہو‘‘ ۔ اﷲ کے حبیب ﷺ نے قبیلۂ بنوثقیف کے بتوں کو توڑنے کیلئے حضرت خالد بن ولیدؓ کو بھیجا ۔ جب آپ نے بڑے بت کا سر توڑا تو وہ دھڑام سے نیچے گرا لوگوں نے سمجھا شاید عذاب آگیا لیکن جب بت کو پوری طرح مسمار کرکے خالد بن ولید باہر آئے تو لوگوں کے دلوں سے باطل کا وہم ٹوٹا ۔ ہم جس مذہب کے ماننے والے ہیں وہ مذہب باطل شکن ہے اور سچائی و صحیح العقیدہ کی تعلیم دیتا ہے ۔ ایمان جتنا کامل ہوتا ہے اس کا کمال اتنا ہی زیادہ ہوتا ہے ۔ اگر ہم لوگ اﷲ اور اس کے رسول پر سچا یقین رکھتے ہیں تو پھر اﷲ کافرمان ہے :’’بیشک باطل کو مٹنا ہی ہے ‘‘ ۔