امام عالی مقام رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی شہادت محض مظلومیت کی داستان

   

یا معرکۂ حق و باطل میں اللہ کی برہان

موت کو سمجھا ہے غافل اختتام زندگی
ہے یہ شام زندگی، صبح دوامِ زندگی
عشق ومحبت اور حق و صداقت کی راہ میں بے شمار شہادتیں ظہور پذیر ہوئی ہیں۔ شوقِ شہادت کے متوالوں کا راہ عشق ووفاء میں قربانیوں کا ایک لامتناہی سلسلہ چلا آ رہا ہے اور تا قیامِ قیامت اس کا تسلسل جاری وساری رہے گا۔ تاہم کسی شہادت کا روئے زمین پر اسقدر اثر اور غم نہیں دیکھا گیا جیسا کہ نواسۂ رسول، جگر گوشۂ بتول نوجوانانِ جنت کے سردار ، امام عالی مقام سیدنا حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی شہادت کا رنج و غم نظر آیا۔ چودہ صدیاں گزرنے کے با وجود عاشقانِ اہلبیت ، راہروانِ راہِ صداقت کے دلوں میں یہ غم ابھی بھی تازہ ہے ، کیوں نہ ہو یہ شہادت درحقیقت پیغمبرانہ عزیمت کی صدائے بازگشت ثابت ہوئی ہے اور انبیاء کرام و پیغمبر ان عظام کی عظیم الشان تاریخ میں کسی نبی کی اولاد اور خانوادہ کا ایسی شہادت و قربانی پیش کرنے کی مثال نہیں ہے ۔ اس شہادت میں بہت سے اسرار و رموز ہیں بلکہ یہ شہادت اسلام کی حقیقت اور اس کے حقیقی فلسفہ کی غمازی کرتی ہے۔ اگر ہم اس شہادت کے پس پردہ امام عالی مقام رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے جذبہ و جنون پر غور کرتے ہیں تو ہمیں اسلام کی روح کو سمجھنا آسان ہو جاتا ہے۔
واضح رہے کہ اسلام کی حقیقت وروح کو سمجھنے کے لئے صوفیاء کرام اور اولیائے عظام کی فلسفیانہ تشریحات و تلمیحات ممدو معاون ثابت ہوتی ہے۔ چنانچہ حضرت خواجہ فرید الدین عطارؒ کا مشہور شعر ہے ؎
قدسیاں را عشق ہست و درد نیست
درد را جز آدمی در خورد نیست
یعنی فرشتے عشق الٰہی سے سر فراز ضرور ہیں تاہم انہیں در دل ، سوزِ فراق ، آتش عشق میں جلنا ، راہِ عشق میں مال و متاع اپنی اور اپنی آل و اولاد کی جانوں کو نچھاور کرنا مفقود ہے ، اس کے بر عکس حضرت انسان کو جو عشق کی نعمت عطا ہوئی ہے اس میں درد ، تڑپ اور آتش ہوتی ہے جو عشاق کو جلا دیتی ہے اور اس کے گھر بار کو اُجاڑ دیتی ہے تاہم عاشق اسی عشق کی آتش و تڑپ میں قرارِ جان محسوس کرتا ہے اور یہی عشق درحقیقت سلوک کا محور اور ترقیٔ درجات کا موجب ہے ؎
مرحبا اے عشق خوش سودائے ما
اے طبیب جملہ علت ہائے ما
ملتِ عشق از ہمہ دینہا جداست
عاشقان را ملت و مذہب خداست
(مولانا رومی)
علاوہ ازیں جب عشق الہی کسی مرد مومن کے دل میں راسخ و مستحکم ہو جاتا ہے تو اس کا دل غیرِ خدا کے خوف سے خالی ہو جاتا ہے ، بنا بریں کسی جابر و سفاک بادشاہ کا ظلم واستبداد یا ظالم مملکت کا طمطراق اس کو خوفزدہ یا متاثر نہیں کرسکتا اور یہی کیفیت! یعنی عشق الٰہی میں فنائیت اور نیکی یا غیر خدا سے بے خوفی اسلام کا مطلوب و مقصود ہے اور یہی خدائے ذوالجلال کے خلیفۂ حق کی پہچان ہے۔ اُسی کے جلوے ہمیں حضرات انبیاء کرام اور عاشقان با ہمت کی زندگیوں میں نظر آیا کرتے ہیں چنانچہ حضرت ابراھیم علیہ السلام کا نمرود کے دربار میں کامل یکسوئی کے ساتھ بے خوف وخطر دعوت حق پر مناظرہ کرنا اور شاہی دربار کے رعب و ہیبت سے رمق برابر متاثر ہوئے بغیر عقلی دلائل سے بادشاہ کو مرعوب و مقہور کرنا نیز آتش نمرود میں کشاں کشاں چلے جانا اور غیر خدا سے قطعاً امید و آس نہ رکھنا، اپنے اکلوتے فرزند ارجمند کو حکم الٰہی پر ذبح کرنے کے لئے گردن پر چھری کو چلا دینا اسی ایمان باللہ، عشق الٰہی اور غیر خدا سے بے خوفی کی اعلی مثال ہے۔ اور یہی جلوے ہمیں حضرت موسی علیہ السلام کی زندگی میں نظر آتے ہیں ۔ چنانچہ آپؑ کا فرعون کے دربار میں دعوت حق دینا، بنی اسرائیل کی خلاصی کے لئے نمائندگی کرنا اور مضبوط و سفاک حکومت کے خلاف اعلان جنگ کرنا اور بنی اسرائیل کے ساتھ سمندر میں کود جانا اس عشق اور غیر خدا سے بے خوفی کی بہترین مثال ہے اور یہی کیفیت، ایمان کا مقصود اور اسلام کی روح ہے۔ کبھی اس کیفیت کا حامل جبر و استبداد کا شکار بن جاتا ہے اور دل دہلانے والے مظالم کا سامنا کرتے ہوئے خود بھی تباہ و برباد ہو جاتا ہے اور اس کے اہل و عیال بھی ہلاک ہوجاتے ہیں ۔ وہ بظاہر لوگوں کے لئے عبرت و تماشا نظر آتا ہے لیکن حقیقت میں یہی شخص کا میاب و کامران ہے اور یہی دین و دنیا میں حق کی پہچان اور آواز بنکر بامراد بن جاتا ہے ۔
اسی پس منظر میں ہم امام عالی مقام رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی شہادت کا جائزہ لیں تو یہی پیغام سمجھ میں آئے گا کہ دل سے خوف کے بتوں کو توڑ کر اللہ سبحانہ و و تعالیٰ کی ذات اقدس پر کامل ایقان رکھتے ہوئے راہِ عشق میں اپنے محبوب پر اپنی اور اپنے خانوادہ کی جانوں کو قربان کر دینا ہی ایمان کا مقصود اور اسلام کی روح ہے۔
اسی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے پیشوائے مشا ئخ ہندوستان خواجۂ خواجگان حضرت خواجہ معین الدین چشتی رحمتہ اللہ تعالیٰ علیہ نے ایک شہرہ آفاق رباعی نظم کی جس میں آپؒ نے امام عالی مقام رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو باوجود یکہ آپؓ مظلوم شہید ہوئے دین و دنیا کا بادشاہ قرار دیا اور آپؓ کے جراتمندانہ اقدام کو عین دین اور دین کے تحفظ سے تعبیر کیا اور باطل سے سمجھوتہ نہ کرنا بلکہ اپنے اور اپنے خانوادہ کی جانوں کو قربان کردینے کو توحید خالص کا معیار یعنی لاالٰہ الااللہ کی بنیاد گردانا ہے ۔ چنانچہ ارشاد فر ماتے ہیں ؎
شاہ است حسینؓ، بادشاہ ہست حسینؓ
دین است حسین، دیں پناہ است حسینؓ
سرداد نہ داد دست در دست یزید
حقا کہ بنا لا اِلٰہ است حسینؓ
جس طرح امام عالی مقام رضی اللہ تعالیٰ عنہ تا قیامت حق کی مثال اور ’’ لا اِلہٰ الا اللہ ‘‘ کا معیار قرار پائے ، اسطرح یزید تاقیامت باطل کی بدترین مثال بن گیا۔ محققین سے یزید کے بابت مختلف اقوال نقل ہوئے ہیں۔ کسی نے اسکو ایمان سے خارج کیا تو کسی نے اس پر ضلالت و گمراہی کا فتوی دیا ، کسی نے اس پر لعنت کو روا رکھا تو کسی نے لعنت سے منع تو کیا لیکن اس پر فسق و فجور کا حکم لگایا، ان تمام چیزوں کے قطع نظر وہ تاقیامت عبرت کا نشان بن گیا۔ جس طرح شیطان راندۂ درگاہ ہوا اور تاقیامت ملعون ٹھہرا اور نمرود ، فرعون ، ابوجہل اور ابو لہب کفر و شرک اور تکبر و ہٹ دھرمی میں عبرت بن گئے اسی طرح یزید تا قیامت باطل اور ظلم و جور کی تصویر بن گیا ۔ قبر میں اور آخرت میں جو معاملہ ہو اللہ تعالیٰ بہتر جانے تاہم اس دنیا میں تاقیامت ذلیل و خوار ہوا ہے ۔
مخفی مباد کہ صوفیاء کرام و سالک کے دل میں عشق الٰہی کی آگ بھڑکانے اور غیر خدا کے خوف کے بت توڑنے کے لئے ذکر خفی و اثبات یعنی کلمہ طیبہ کے ورد کی تلقین کرتے ہیں اور لااِلٰہ میں لا موجود ، لا مقصود ، لا مطلوب ، لا نافع و لا ضار کے تصور پر زور دیتے ہیں تاکہ عشق الٰہی اور کامل توکل پیدا ہو نیز غیر خدا سے رتی برابر خوف و ہیبت پیدا نہ ہو کیونکہ یہی کیفیت مقصودِ ایمان اور بنائے لااِلٰہ ہے اور ہم سب کو بھی امام عالی مقام رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے نقش قدم پر چلتے ہوئے اسی کیفیت کو جلا بخشنے کی فکر کرنی چاہئے ۔ کربلا میں امام عالی مقام رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی اپنے خانوادہ اور جاں نثاروں کے ساتھی مظلومانہ شہادت ہمیشہ بادیدۂ نم پڑھی گئی تاہم اسکو زندگی میں انقلاب لانے کی بھی غرض سے پڑھنے کی ضرورت ہے ؎
طوفان نوح لانے سے اے چشم فائدہ
دو اشک بھی بہت ہیں اگر کچھ اثر کریں