مولانامحمد فرحت علی صدیقی اشرفی
اللہ تبارک وتعالی بہ زبان مصطفیﷺ ارشادفرماتاہے کہ اول ماخلق اللہ القلم ۔ سب سے پہلے خدانے قلم پیدا فرمایا ۔ اس نوعیت کا ایک اور فرمان مذہبی کتب میں ملتا ہے کہ اول ماخلق اللہ العقل۔ سب سے پہلے خدانے عقل پیداکیا ، حضرت حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ (سن: ۱۱۰ھ) نے اس کو حدیث مرسل لکھاہے جبکہ اس کو بعض نے روایت بالمعنی میں شمارکیاہے، اس طرح ایک مشہور ومعرور حدیث پاک ہے ’’اول ماخلق اللہ نوری‘‘ سب سے پہلے خدانے نورنبیﷺ کو پیدا فرمایا (زرقانی ۱۱۲۲ھ، علامہ محمد بن عبدالباقی زرقانی مالکی۔ المواہب)تینوں احادیث میں پہلے قلم ، عقل، اورنور کو پہلے پیدا کرنے کا ذکرموجود ہے ان تینوں بیانوں میں صوفیاء عظام اسطرح تطبیق کرتے ہیں کہ سب سے پہلے تو اللہ تبارک وتعالی نے اپنے نور سے نور مصطفی ﷺ ہی کی تخلیق فرمائی ، چنانچہ اسی نورمحمدی ﷺ کے جلوہ کو کہیں عقل سے تعبیر فرمایا ، کہیں نور قلم سے ۔ انتہاء یہ کہ نور محمدی ﷺ کی تخلیق کے بعد سبھی جلوے خداکے حبیب ﷺ ہی کے ہیں۔
اس سے یہ اشارہ ملاکہ عقل ہی وہ صفت ہے جس کی وجہ سے ہمیں ہرقسم کا ادراک وعرفان حاصل ہوتاہے۔ قلم ہی وہ نورہے جس سے عرفان ونورانی تحریریںاور علمی صفات عالم وجود میں آکرصفحہ قرطاس ، صفحہ ہستی وصفحہ ذہن پر ابھرتی ہیں۔ اور نور مصطفی ہی وہ عظیم نعمت ہے جن کے فیض سے عقل، قلم اور علوم کے انوار کوسمجھا جاسکتاہے۔ کیونکہ ’’نور محمدی‘‘ خداکے صفات سے متصف ہے۔ چنانچہ محقق علی الاطلاق حضرت شاہ عبدالحق محدث دہلوی رحمۃ اللہ الباری (سن۱۰۵۲ھ) اس خصوص میں ارشاد فرماتے ہیں کہ خدا کے حبیب ولبیب اللہ تبارک تعالیٰ کی تمام صفات سے متصف ہیں۔ (مدارج النبوت جلداول)
انہیں علماء ربانین میں نور علم سے منور ایک شخصیت کا نام نامی مولانا حافظ محمدانوار اللہ فاروقی رحمۃ اللہ علیہ ہے۔ جنہیںباقی باللہ شیخ الاسلام و فضیلت جنگ جیسے رفیع القاب سے دنیائے علم وعرفان جانتی ہے ۔ جس کا شرف حیدرآباد دکن کو حاصل ہے۔
حضرت فضیلت جنگؒ نے اپنی تمام عمردرس وتدریس کے علاوہ تصنیف وتالیف میں گزاری ، تحقیقی مضامین وعلمی کتب ا نکے تبحرعلمی وفقہی نیزان کے علمی گہرائی وگیرائی کی منہ بولتی تصویریں ہیں۔ مگر آپ کی خدمات ، کارناموں وشہکاروں میں حیدرآبادمیں ’’جامعہ نظامیہ ‘‘اوردائرۃ المعارف کا قیام ہے۔ جامعہ نظامیہ حیدرآباد تقریباپچھلے ایک سوچھیالیس سال (۱۴۶)سے ساری دنیا بالخصوص دکن ہندوستان میں ضیاء علم سے لوگوں کے دلوں کو منور اور ان کی زندگیوںکی تطھیر کررہاہے۔ اس مدت میں اس مادر علمی سے ہزاروں علماء لاکھوں دانشور، حفاظ وفقیہ فیضیاب ہوکرمخلوق خدا میں علم کی روشنی پھیلاتے آئے ہیں جو حیدآباد دکن کے مسلمانوںکے لئے ایک علمی امتیاز کا حامل ہے۔
اس خصوص میں وہ نفوس بھی یقینا قابل مبارکبادہیں جو پچھلے دیڑھ صدی سے اس جامعہ کی مالی امداد اورہر قسم کے استحکام نیز اس کی ترقی وترویج میں للہیت سے حصہ لیتے آئے ہیں۔ کیونکہ علماء کی خدمت اور علوم دینیہ کے طلباء کی اعانت کرنا خدا کی خوشنودی حاصل کرنے کا موثر ذریعہ اور برکتوں سے لبریز ہونے کا بہترین طریقہ ہے۔
جب ہمارے علماء ربانین خدا کی بھلائی پاکر خدا کے فضل وعطا سے اسکی صفت کے مظہر بنے تو ہمارا ان علماء کو انہیں کے نام سے پکارنا بغیر القاب کے ان کا نام لینا یقینا بے ادبی ہے ۔ ان علماء کی بھی او ران میں پائے جانے والے علم کی بھی ۔ یوں بھی علماء کرام وبزرگوں کو نام لے کرپکار نے سے رزق میں کمی واقع ہو تی ہے (صوفیائ) پھر تو علماء کرام کو اپنے تعلقات کے بنیاد پر یا عصر وہم عمری کے سبب ان کے نام کے ساتھ بھائی کی اضافت سے بلانا بھی نازبیاہوگا۔ اس کا ہرگزیہ مطلب نہیںکہ ہمارے علماء کو کسی کا لحاظ نہ کرنہ چاہئے۔ یہ مطلب ہرگزہرگز نہ لیا جائے کہ علماء کو نوافل سے بے رغبت ہو نا چاہئے ۔ بہر حال ہمیں علماء کی بارگاہوں اور ہمارے بزرگوں سے باادب رہنے کی توفیق خداوندی حاصل ہو (آمین)لیکن عالم دین عابد پر یقینا فضیلت رکھتاہے۔
انتہا ء یہ کہ عالم دین کا خواب بھی کسی عابد کے خواب سے افضل ہے۔ (حضرت ابن سیرینؓ۱۱۰ھ)جب عالم وغیر عالم نیند میں برابر نہیں۔ خواب دیکھنے میں یکساں نہیں تو پھر قیاس کرنا چاہئے کہ باقی معاملوں یا دیگر احوال زندگی میں انہیں کیا کچھ فضیلت حاصل نہ ہوگی۔
کسی نہ کسی ذریعہ سے یہ فرما ن رسولﷺ آپ تک پہنچا ہوگا کہ ایک عالم فقیہ کا ایک لمحہ تفکر دین میں گزارنا، جاہل کی رات بھر کی عبادت سے بہتر ہے ۔ (ابن ماجہ۔ پورانا م:ابوعبداللہ محمدابن ماجہ)
سرکارعالم ماکان ومایکون دراللہ المکنون ﷺ کی اس حدیث کو بھی عشق ومحبت کے سرور ، اورظاہر وباطنی نور سے دیکھیں کہ فرماتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ اور اس کے فرشتے اور تمام آسمان وزمین والے یہاں تک کہ چیونٹیاں اپنے سوراخوں میں دریا کی مچھلیاں سمندر کی گہرائیوں اور دریاؤں کی وسعتوں میں ’’علماء دین ‘‘ کے لئے دعاء کرتے ہیں۔ ان کی بھلائی کے متمنی رہتے ہیں جوکہ علم دین سیکھاتے ہیں۔
(ترمذی۔ محمدبن عیسی ترمذی ومشکوۃ شریف)
جن نفوس قدسیہ کی بھلائی اور ان کی زندگی وعمرمیں برکت کے لئے ساری مخلوقات مصروف دعاء ہے انتہاء یہ کہ خود خلاّقِ دوعالم ربِّ کائنات بھی۔ تو غیر علماء کوعلماء عظام کا کتنا لحاظ رکھنا چاہئے۔
علمائے ربانین وحامل دین شرع متین کی اس قدرشان اور ایسی عظمت وبرکت بیان ہوئی ہو، ان کی فضیلت میں احادیث مبارکہ دلالت کرتے ہوں ۔ مقام غورہے کہ وہ جگہ کتنی مبارد ومسعود ہوگی جہا ںعلوم شریعہ کی تعلیم دی جاتی ہے ، ایسے علمائے کاملین بنائے جاتے ہیں ، پھر ایسی متبرک جگہ فضیلت وعظمت سے ہمکنار کرنے والے مدرسہ وجامعہ کے بانی کی ذات وشخصیت کتنی اعلیٰ درجہ کی ہوگی کتنی باوقار ہوگی جس جامعہ میں دنیوی واخروی کامیابیوں کی تعلیم ، درس وتدریس کا انتظام وانصرام کیا جاتا ہو، طلباء کے قیام وطعام کا اہتمام کیا جاتا ہو ، یقینا وہ جگہ پوری بستی کے لئے باعث برکت اور اس کی اعانت کرنے والوں کو دونوںجہاں میں بے پناہ کامیابیوں کی ضمانت دلاتی ہے۔
ان علماء عظام سے مستفید و مستفیض ہو نے کا ایک اور موثر ذریعہ ان کی کتب وتصانیف کا مطالعہ ہے، ان کی تالیفات پڑھنا ہے۔ فضیلت جنگ علیہ الرحمہ نہ صرف درس و تدریس کے ماہر استاذتھے بلکہ میدان تصنیف کے شہسوار بھی۔ مقاصدالاسلام، انوار احمدی ، حقیقۃ الفقہ وغیرہا ان کے شہوار قلم کے شہکار ہم کہہ سکتے ہیں ان جیسی دیگر کتب کے مطالعہ کے بعد ان کے تبحر علمی ، شان تحقیق اور عشق نبوی ان کی تحریروں سے مہکتاہے اور قاری کے دل ودماغ نہیں بلکہ جسم وجاں کو معطر کرکے اس کا راست تعلق گنبدخضراء سے کروادیتی ہے۔
فی زمانہ ضرورت اس بات کی ہے کہ فضیلت جنگ کی کتب کو شائع کیا جائے اور جو شائع شدہ ہیںان کو نئی زبان سے مزین کرنے کی بھی ضرورت ہے۔ بلکہ ان کی کتب مع شرح شائع کرنے کی اشد ضرورت ہے تاکہ ان کا عقیدہ جو خیرالقرون سے مدلل اور بارگاہ نبوی ﷺ سے وابستہ ہے ہمارے ایمان وعقیدہ کی سلامتی کا ذریعہ بنے اور اس سے تسکین حاصل کرے۔ ہمیں اس بات کی بھی ضرورت ہے کہ ان کی اور دیگر علماء کرام کی تصنیفات خرید کر پڑھنے کی عادت ڈالیں تاکہ ہمارا ایمان عقیدہ محفوظ رہے جس کے لئے یقینا آج بھی ہمیں کافی وقت ہے۔ {اللّٰھم رب زدنی علماً}