ہندوستان میں کسی بھی طرح کے امتحان انتہائی اہمیت کے حامل ہوتے ہیں۔ ان ہی امتحانات کے ذریعہ طلبا کے مستقبل کا تعین ہوتا ہے ۔ ان ہی امتحانات سے گذرتے ہوئے ہونہار طلبا سماج اور معاشرہ میں اعلی مقام حاصل کرتے ہیں اور پھر ملک و قوم کی خدمت کرتے ہیں۔ ملک میں اعلی تعلیمی اداروں میں داخلے ہوں یا پھر سرکاری تقررات ہوں ان سب کیلئے امتحانات کا انعقاد عمل میں لایا جاتا ہے تاکہ کسی بھی حقدار یا مستحق سے نا انصافی نہ ہونے پائے اور نہ ہی کسی کے ساتھ کوئی جانبداری ہوسکے ۔ معمولی درجہ چہارم کی ملازمت سے لے کر سیول سرویس تک کے عہدوں کیلئے امتحانات ہوتے ہیں اور تقریبا تمام تعلیمی اداروں کا بھی یہی حال ہے ۔ ہر ادارہ میں داخلہ کیلئے مسابقت ہوتی ہے اور صرف قابل امیدوارں کو موقع دیا جاتا ہے۔ تاہم حالیہ چند برسوں میںدیکھا گیا ہے کہ تقریبا ہر امتحان میں بدعنوانیوں اور بے قاعدگیوں کی شکایات عام ہونے لگی ہیں۔ ان شکایات کا اگر جائزہ لیا جائے تو ملک کی کئی اہم ریاستوں میں یہ صورتحال پیش آنے لگی ہے ۔ عین امتحانات کے موقع پر پتہ چلتا ہے کہ امتحانی پرچہ کا افشاء ہوگیا تھا ۔ کبھی امتحان کے بعد یہ حقیقت آشکار ہوتی ہے کہ چنندہ امیدواروں کو امتحانی پرچے پہلے ہی سے فراہم کردئے گئے تھے یا پھر یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ کچھ طلبا کی جگہ دوسرے طلبا نے امتحان تحریر کیا ہے ۔ یہ سب کچھ ملک کے اورنوجوانوں کے مستقبل سے کھلواڑ ہے اور اس کے ذریعہ امتحانات کی اہمیت اور اس کے تقدس کو پامال کیا جا رہا ہے ۔ امتحانات کی اہمیت کا اس بات سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ محض ایک یا نصف نشان کے فرق سے بھی کوئی منتخب ہونے سے رہ جاتا ہے یا منتخب ہوجاتا ہے ۔ اسی لئے امتحانات کے انعقاد میں انتہائی احتیاط برتی جاتی ہے ۔ پوری ذمہ داری کے ساتھ امتحانات کا انعقاد عمل میں لانا ہوتا ہے تاہم امتحانات میں بے قاعدگیوں اورپرچوں کے افشاء نے ساری صورتحال ہی کو تبدیل کرکے رکھ دیا ہے اور امتحانات میں بدعنوانیوں کے ذریعہ طلبا سے کھلواڑ ہو رہا ہے ۔ اس معاملے میں عہدیدار اور خانگی تعلیمی ادارے مساوی ذمہ دار ہیں۔
ملک بھر میں جیسے جیسے تعلیمی اور ملازمتوں کے شعبہ میں مسابقت میں اضافہ ہوا ہے اسی طرح خانگی تعلیمی اداروں نے بھی اپنے جال پھیلا دئے ہیں۔ خانگی تعلیمی ادارے خالص تجارتی اغراض کے تحت اس شعبہ میں سرگرم ہوئے ہیں اور وہ طلبا کو مسابقت کیلئے تیار کرنے کے نام پر ان کا استحصال تک کرنے لگے ہیں۔ جہاں طلبا پر بے تحاشہ بوجھ عائد کیا جاتا ہے وہیں ان سے بھاری بھرکم رقومات حاصل کرنے سے بھی گریز نہیں کیا جاتا ۔ ان ہی خانگی تعلیمی اداروں نے دوسرے اداروں سے مسابقت اور خود کو اول نمبر قرار دینے بدعنوانیوں کا آغاز کیا ہے ۔ ایسے ہی بعض اداروں کے ذمہ داروں کی جانب سے بدعنوانیوں کو فروغ دیا جا رہا ہے اور وہی پرچہ جات کے افشاء میں معاونت کرنے لگے ہیں۔ امتحان کیلئے تیار کرنے اور امتحان لکھوانے کے نام پر رقومات حاصل کرتے ہوئے دوسرے مستحق طلبا سے نا انصافی ہو رہی ہے اور حصول تعلیم اور امتحانات کو بھی خالص منفعت بخش کاروبار میں تبدیل کردیا گیا ہے ۔ تعلیم کی فراہمی اور تدریس کو ایک مقدس پیشہ سمجھا جاتا رہا ہے اور اس کی عزت و توقیر ہمیشہ ہی زیادہ رہی ہے ۔ حالیہ عرصہ میں جہاں تعلیم کی اہمیت کو لوگ سمجھنے لگے ہیںاور حصول تعلیم کیلئے جدوجہد کرنے لگے ہیں وہاں خانگی اداروں نے اس کو تجارتی مقصد میں تبدیل کرتے ہوئے امتحانات کے تقدس کو پامال کیا ہے اور اس میںسرکاری اداروں کے کچھ ذمہ داران بھی حصہ دار بن گئے ہیں۔ وہ خانگی تعلیمی اداروں کے مفادات کی تکمیل کرنے لگے ہیں۔
جس طرح سے UG-NEET کے نتائج پر سارے ملک میں بے چینی پیدا ہوئی ہے وہ افسوسناک ہے۔ یہ امتحان میڈیکل کورسیس میںداخلوں سے متعلق ہے اور اگر اس میں بھی بے قاعدگیاں اور بدعنوانیاں ہوتی ہیں تو قوم و ملت کی صحت سے کھلواڑ ہے ۔ نوجوانوں اور طلبا کے مستقبل سے کھلواڑ ہے ۔ اس میں جس طرح سے کچھ اداروں اور کچھ طلبا کی غیر ضروری معاونت کے الزامات سامنے آئے ہیں وہ سنگین ہیں۔ اس کا مرکزی حکومت اور نیشنل ٹسٹنگ ایجنسی کو جائزہ لینے کی ضرورت ہے ۔ اگر کچھ بدعنوانیاں ہوئی ہیں تو ان کا ازالہ کیا جانا چاہئے اور مستقبل میں اس طرح کی بدعنوانیوں کو روکنے منظم منصوبہ پیش کرنا چاہئے ۔