صبح کے اُجالوں میں شب کے پاسبانوں کا
حال کیا ہوا ہوگا کیا خبر خدا جانے
امریکہ میں ڈونالڈ ٹرمپ کے صدارتی ذمہ داری سنبھالتے ہی اتھل پتھل کا سلسلہ شروع ہوگیا ہے ۔ صدر ٹرمپ نے پہلے ہی اعلان کردیا تھا کہ وہ امریکہ کو نئی بلندیوں پر لیجانے کا منصوبہ رکھتے ہیں اور اس سلسلہ میںسخت فیصلے کریں گے ۔ امریکہ میں صدر ٹرمپ کے اقتدار سنبھالتے ہی غیر قانونی طور پر مقیم تارکین وطن کے خلاف کارروائیوں کا آغاز کردیا گیا ہے اور جو لوگ ویزا کی معیاد ختم ہونے کے بعد یا ویزا قواعد کی خلاف ورزی کرتے ہوئے امریکہ میں مقیم ہیں ان کی تلاش شروع ہوگئی ہے ۔ دھاوے کئے جا رہے ہیں اور انہیں گرفتار کرکے امریکہ سے ان کے ممالک کو واپس بھیجنے کی تیاریاں بھی شروع کردی گئی ہیں۔ جہاں تک غیر قانونی طور پر مقیم تارکین وطن کو واپس بھیجنے کا سوال ہے تو اس پر کسی کو اعتراض بھی نہیںہوسکتا کیونکہ کسی بھی ملک میں بیرونی ممالک کے باشندے اگر مقیم رہتے ہیں تو انہیں قوانین کی پابندی کرنے کی ضرورت ہوتی ہے ۔ امریکہ میں ٹرمپ انتظامیہ کی جانب سے دوسرے قوانین بھی بنائے جا رہے ہیں۔ کئی کا اعلان کردیا گیا ہے اور کئی ابھی تدوین کے مراحل میں ہیں۔ خاص طور پر تارکین وطن کے تعلق سے یہ قوانین بنائے جا رہے ہیں جو ان کیلئے سخت ہوسکتے ہیں ۔ انتظامیہ کا یہ استدلال ہے کہ امریکہ کیلئے جو بہتر سمجھا جا رہا ہے اسی پر عمل کیا جا رہا ہے ۔ ایسے میں یہ بات طئے نظر آتی ہے کہ آئندہ وقتوں میں امریکہ میں تاکین وطن کیلئے مشکلات پیش آسکتی ہیں۔ انہیں نہ صرف ویزا قواعد میں سختی جھیلنی پڑسکتی ہے بلکہ امریکہ میں قیام اور ملازمتوں کے معاملات میں بھی انہیں جدوجہد کرنی پڑسکتی ہے ۔ طلباء کیلئے بھی یہ قوانین مشکلات کا باعث ہوسکتے ہیں۔ امریکہ دنیا بھر کے اعلی تعلیم کے خواہاں طلبا کیلئے ایک اہم مرکز سمجھا جاتا ہے ۔ کئی ممالک سے طلباء یہاں آتے ہیں۔ اپنی تعلیم پوری کرتے ہیں اور پھر روزگار بھی حاصل کرتے ہیں۔ تعلیمی اخراجات کی تکمیل کیلئے بھی کچھ ملازمتیں کرتے ہیں ۔ تاہم اب جو قوانین تیار کئے جا رہے ہیں یا جن کا اعلان کیا گیا ہے ان کے نتیجہ میں یہ ساری صورتحال تبدیل ہوسکتی ہے اور کئی گوشے اس سے متاثر ہوسکتے ہیں۔
ہندوستانیوں کی بھی کثیر تعداد امریکہ میں مقیم ہے ۔ بیشتر نوجوان وہاں اعلی تعلیم حاصل کرتے ہیں اور پھر روزگار پالیتے ہیں۔ ان کیلئے مشکلات پیش آسکتی ہیں۔ ہزاروں افراد ایسے بھی ہیں جو قواعد کی خلاف ورزی کے بھی مرتکب پائے جاسکتے ہیں۔ انہیں امریکہ وطن واپس بھیجنے کا منصوبہ رکھتا ہے ۔ اس معاملے میں ہندوستان نے بھی واضح کردیا ہے کہ جو لوگ امریکہ میں قوانین کی خلاف ورزی کے ساتھ مقیم ہیں انہیںوطن واپس لینے میںکوئی رکاوٹ نہیںہوگی ۔ہندوستان اپنے ایسے شہریوں کو واپس لینے کیلئے تیار ہے جو امریکہ میںغیر قانونی طور پر مقیم ہیں۔ تاہم اس معاملے میں ہندوستان کو اپنے شہریوں کے مفادات کے تحفظ کیلئے بھی سرگرم کوششیں کرنے کی ضرورت ہے ۔ جو افراد امریکہ میںان قوانین سے اور نئے قواعد سے متاثر ہونگے ان کیلئے مشاورت فراہم کی جانی چاہئے ۔ ان کی کونسلنگ کرتے ہوئے تازہ اصولوں سے واقف کروایا جانا چاہئے ۔ انہیںہراسانی سے بچانے کیلئے اقدامات کئے جانے چاہئیں۔ اپنے شہریوں میں بے چینی کی کیفیت پیدا ہونے سے روکنے کیلئے انہیںاعتماد میں لیتے ہوئے رہنمائی اگر کی جائے تو یہ ہندوستانی شہریوں کے حق میں مفید ہوسکتا ہے ۔ مقامی سطح پر ہندوستانی شہریوں کیلئے ہندوستانی سفارتخانہ اور قونصل خانوں کے ذریعہ یہ سہولیات فراہم کی جاسکتی ہیں اور ان کے مفادات کے تحفظ کیلئے کوشش کی جاسکتی ہے تاکہ قانونی طور پر مقیم افراد کو کسی طرح کی پریشانیوں کا سامنا کرنے کی نوبت نہ آنے پائے ۔
جو قوانین امریکہ بنانا چاہتا ہے ان میں ایک اہم فیصلہ یہ تھا کہ امریکہ میں پیدا ہونے پر شہریت نہیں دی جائے گی ۔ تاہم اس فیصلے کو ایک امریکی عدالت نے مسترد کردیا ہے اور کہا کہ یہ فیصلہ غیر دستوری ہے ۔ اسی طرح جو دوسرے قوانین لاگو کئے جاسکتے ہیں ان کے تعلق سے بھی چوکسی اختیار کرنے کی اور ان کے تعلق سے معلومات حاصل کرنے کی ضرورت ہے ۔ ان قوانین پر خود امریکہ میں کیا کچھ حالات درپیش آسکتے ہیں انہیں پیش نظر رکھتے ہوئے باریک بینی کے ساتھ حالات کا جائزہ لینے اور ہندوستانی نوجوانوں ‘ طلباء اور شہریوں کے مفادات کے تحفظ کیلئے حکومت ہند کی جانب سے ہر ممکن مدد فراہم کی جانی چاہئے ۔